ایک مرتبہ ملا نصیرالدین نے اپنے بیٹے کو ایک برتن دے کر اُس میں کچھ لانے کے لیے بھیجا۔ ملا نصیرالدین نے اپنے بیٹے کو ایک تھپڑ مارتے ہوئے کہا کہ خیال رکھنا ایسا نہ ہو کہ کہیں گِر کر برتن ہی توڑ دو۔ ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے پوچھا کہ بیچارے بچے کو تھپڑ کیوں مارا؟ ملا نے جواب دیا، اگر برتن توڑ دے تو پھر سزا دینے کا کیا فائدہ؟ اسی وجہ سے غلطی سے پہلے ہی سزا دے دی۔
قارئین! ملا نصیرالدین کی اِس چٹکلے میں حقیقت ہو یا نہ ہو، لیکن اِس نے ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ ضرور کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ ایک معمول ہے کہ جب کوئی بچہ یا بڑا کوئی غلطی کرتا ہے، تو سامنے والا غصے سے لال پیلا ہو کر اُس پر برس پڑتا ہے۔ غصہ کرنے والے کا بظاہر تو مقصد غلطی کرنے والے کو سمجھانا ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اکثر انگریزی فلموں میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ فلاں کام نہیں کرنا یا فلاں چیز کے پاس نہیں جانا۔ منع کرنے کے باوجود جب بچہ وہ کام کرتا ہے اور اُس سے بچے اور والدین کے لیے کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، تو والدین کبھی بچوں پر غصہ نہیں کرتے کہ ہم نے کہا تھا نا کہ ایسا نہیں کرنا۔ اِس کے برعکس والدین بچے کی غلطی کا اِزالہ کرنے کوشش کرتے ہوئے نقصان کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سب سنبھالنے کے بعد آرام سے بچے کو پیار سے سمجھاتے ہیں۔ ایسا حقیقت میں مغربی ممالک میں ہو یا نہ ہو، لیکن اِس میں ہمارے لیے سبق ضرور ہے۔
کسی بھی شخص کی کسی بھی غلطی پر اُس کی سرزنش کرنا اور اُس کو غلطی پر نادم کرانا اصل میں اُس کی رہنمائی یا سمجھانے میں بہت کم کردار ادا کرتا ہے اور غصہ کرنے والے کی انا کی تسکین میں زیادہ۔ اگر کسی کا مقصد غلطی کرنے والے کو اُس کی غلطی سے واقف کرانا ہے، تو اُس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ غلطی کرنے کے فوراً بعد ہی بندے کو خود اندازہ ہوجاتا ہے کہ اُس سے غلطی ہوگئی اور اُس میں کسی کے سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ البتہ غلطی پر سرزنش پانے سے غلطی کرنے والے کی ندامت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے، اور یوں یہ ایک طرح سے انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی بچے سے کوئی برتن گِر کر ٹوٹ جائے، تو برتن کے زمیں تک پہنچنے سے پہلے ہی بچے کو احساس ہوجاتا ہے کہ اُس سے غلطی ہوگئی جو کہ نہیں ہونی چاہیے تھی، لیکن اب جب ہوگئی تو کیا کیا جاسکتا ہے؟ اب اگر کوئی یہ کہہ کر بچے پر غصہ کرے کہ دیکھ کر چلنا چاہیے تھا، یا اندھے ہوگئے ہو کیا؟ وغیرہ، تو اِس کا کیا فائدہ؟ ایسے غیر ضروری باتوں سے بچے کے ذہن پر اُلٹا اثر پڑتا ہے اور غلطی پر سوچنے کے بجائے غصہ کرنے والے کے بارے میں غلط تاثر پیدا ہوتا ہے۔
بچے پر غصہ کرنے سے اُس کے جسم اور ذہن پر بہت خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کہ اکثر دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ بچوں پر غصہ کرنے سے ان میں غصہ، ڈر، ڈپریشن، احساسِ کمتری، عزتِ نفس کی کمی، ذہنی تناؤ، کمزور دماغی نشو و نما جیسے نفسیاتی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ غصہ کرنے سے بچے کے ذہن میں غصہ کرنے والے کی عزت گھٹ جاتی ہے، بچے کے ذہن میں عزت کے بجائے ڈر بیٹھ جاتا ہے اور وہ خود غصہ کرنا سیکھ جاتا ہے ۔ اگر بچے پر زیادہ لوگوں کے سامنے غصہ کیا جائے، تو اُس کے نقصانات اور بھی زیادہ ہوسکتے ہیں۔
اکثر اوقات کسی خطرناک غلطی کی وجہ سے بچہ ڈر جاتا ہے، جیسے کہ غلط وقت پر سڑک پار کرتے وقت گاڑی سے بچ جانا اور اُسی دوران میں والدین اُسے دَلاسا دینے کے بجائے تھپڑ وغیرہ مار دیتے ہیں یا غصہ کردیتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔ کیوں کہ بچہ انتہائی ڈرا ہوا ہوتا ہے اور اُسے غصے کے بجائے پیار اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس دوران میں بچے کو پیار اور حوصلے کے بجائے غصہ اور سرزنش ملتی ہے، تو بچے کی شخصیت اور نفسیات پر بہت برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔
اس ضمن میں ہماری سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم بچے سے اپنی جیسی ذہنیت کی توقع کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں، بالکل اُسی طرح بچہ دیکھتا ہوگا۔ اور ہم کسی بھی عمل کی صورت میں بچے سے اپنی طرح کے ردعمل کی توقع کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک خطرناک عمل ہے۔ کیوں کہ دو ہم عمر لوگوں سے بھی ایک جیسے ردعمل کی توقع نہیں کرنی چاہیے، بچے تو دور کی بات ہے۔
ایک بات ضرور ہے کہ اگر کسی بچے کو پتا ہی نہیں کہ اُس نے جو کام کیا ہے، وہ اُسے نہیں کرنا چاہیے تھا اور یہ غلطی کے زُمرے میں آتا ہے، تو اُسے پیار اور محبت سے سمجھانا چاہیے کہ فُلاں کام ایسے نہیں بلکہ ایسے کرنا چاہیے۔ یوں بچے کے ذہن پر نہ تو غلط اثر پڑے گا، اور نہ سمجھانے والے کے بارے میں غلط تاثر پیدا ہوگا اور آئندہ وہ کوشش کرے گا کہ ایسا کام کرنے سے گریز کرے۔ اس لیے قارئین سے درخواست ہے کہ کسی بھی غلطی کی صورت میں بچوں پر غصہ کرنے کے بجائے اُس کو پیار سے سمجھانا چاہیے، تاکہ بچے کی اچھی طرح ذہنی نشو و نما اور پرورش ہو، اور وہ ایک اچھی اور پُراعتماد شخصیت کا مالک بنے، تاکہ اپنے، اپنے خاندان اور معاشرے کے لیے ایک مثالی شخصیت بنے، اور معاشرے اور ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرے۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔