وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے کراچی کے انتظامی معاملات میں بہتری کے لیے آئین کی شق 149(4) کے نفاذ کا عندیہ دیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے اہم رہنما اور ماہر قانون دان ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینر اور میئر کراچی وسیم اختر نے وفاقی وزیرِ قانون کی تجویز کی حمایت کی۔جس پر سندھ کی تقسیم کے حوالے سے قیاس آرائیوں اور سخت بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتہائی سخت ردعمل دیا اور بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔
دراصل کراچی کچھ عشروں سے دیرینہ مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اب کچرے کے حوالے سے کراچی کا تشخص بری طرح مسخ ہوچکا ہے ۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ پہلے کراچی میں لاشوں، بھتوں اور ٹارگٹ کلنگ کی سیاست کی جاتی تھی۔ اس فتنے پر سیکورٹی فورسز نے قابو پالیا، تو بلدیاتی مسائل کے حوالے سے قوانین میں سقم، ابہام ساتھ فنڈز اور اختیارات کی کمی نے شہریوں کی زندگی کو اجیرن کردیا۔ ایم کیو ایم پاکستان نے تحریکِ انصاف کو وزرات عظمیٰ کے لیے ایک معاہدے کے تحت ووٹ دیا تھا۔ اگر ایم کیو ایم پاکستان، تحریک انصاف کو ووٹ نہ دیتی، تو عمران خان کا وزیر اعظم بننا مشکل ہوجاتا۔ ماضی کی سیاسی تلخیوں اور الزامات کی سیاست کو ایم کیو ایم لندن کے سر تھوپنے کے بعد دونوں اتحادی جماعتوں نے کراچی کا اصل تشخص بحال کرنے کے لیے آپس میں ہاتھ ملایا، لیکن کراچی کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔
وزیر اعظم کی جانب سے معاہدے کے مطابق اعلان کردہ فنڈز فراہم نہیں ہوئے اور کراچی کے میگا پراجیکٹ پر بھی کوئی تیزی دیکھنے میں نہیں آئی۔ صاف پانی اور بجلی کی عدم فراہمی کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کی بحالی کے وعدے ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ توقع تھی کہ ملک کی معاشی شہ رگ جلد کاروباری سرگرمیوں کی روشنی بکھیرنے لگے گی، لیکن معاشی اصلاحات سے پریشان سرمایہ دار، صنعت کار روز بہ روز بڑھتی مہنگائی اور مزدور پیشہ طبقہ کی بے روزگاری کی وجہ سے بدترین احساسِ محرومی کی تصویر بنتے جا رہے ہیں۔ افسوس ناک صورتحال اب یہ ہے کہ کراچی کے تمام مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ کچرا بن چکا ہے، اور کچرے پر بدترین سیاست نے کراچی کا سارا حسن بری طرح گہنا دیا ہے۔
قارئین، تحریکِ انصاف اپنے اقتدار کے دوسرے پارلیمانی سال میں داخل ہوچکی ہے۔ پہلا برس قرضوں کی وصولی اور معیشت کی سمت متعین کرنے میں گزر چکا۔ اس وقت بھی ملک، معاشی بحرا ن کا شکار ہے اور معیشت کی گاڑی کب پٹڑی پر چلنے لگی ہے، اس پر تبصرہ کیے بغیر ہر خاص و عام کو علم ہے کہ خطے میں درپیش مسائل، حکومت کے لیے سخت چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے پُرامن اور آزاد سیاسی ماحول کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے کتنا فائدہ ہوا اور معاشی نشاطِ ثانیہ کے لیے گرفتار اپوزیشن رہنماؤں سے کیا ڈیل ہوگی؟ اس سے قطعِ نظر کراچی کے عوام، بدبو دار ماحول سے باہر نکلنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مسائل کے حل کے لیے ذہنی امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
کراچی کے مسائل کو کس طرح حل کیا جائے؟ اس پروزیرِ اعظم نے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ خود وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم ہیں جب کہ ان کے علاوہ وفاقی وزیرِ بحری امور علی زیدی اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار، پاکستانی فوج کے تعمیراتی ادارے فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اور متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریکِ انصاف کے ارکان بھی اس میں شامل ہیں۔کراچی میں دیگر اسٹیک ہولڈر جماعتیں بھی ہیں جو کمیٹی میں شامل نہیں۔ کمیٹی بننے کے بعد دو بڑے ایشوز سامنے آئے ہیں، جن میں سب سے پہلا اور اہم ترین تنازعہ آئین کی شق 149(4) سے اُٹھا۔ دوم، صوبائی حکومت نے ایسی کسی کمیٹی کے ساتھ بیٹھ کر کام کرنے سے انکار کیا جس میں فروغ نسیم ہوں۔ جس پر وفاقی وزیر نے ردعمل دیا کہ ان کو بٹھا کون رہا ہے؟ اے این پی، جماعت اسلامی، سنی تحریک، تحریک لیبک اور پاک سرزمین پارٹی سمیت کئی چھوٹی جماعتیں کراچی میں اپنا ایک مخصوص اثر و رسوخ رکھتی ہیں، اور عوامی مسائل کا زیادہ تر تعلق بھی ان چھوٹی جماعتوں کے حلقوں میں ہے۔ ان حالات میں اگر کمیٹی میں کراچی کی دیگر جماعتوں کو شامل نہیں کیا جاتا، تو وفاقی حکومت کو زمینی حقائق کے مطابق سفارشات نہیں مل سکتیں۔ ضروری تھا کہ حکومت بلا امتیاز تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بھی کمیٹی میں شامل کرتی، تاکہ طویل المدتی منصوبہ بندی میں تمام حلقوں کی نمائندگی شامل ہوتی۔ اسی طرح کراچی کے صنعت کار سمیت چھوٹے بڑے کاروباری طبقے اور ٹرانسپورٹرز کی نمائندگی بھی ضروری ہے۔ کیوں کہ کراچی کے لیے ریونیو یہی طبقہ اکٹھا کرتا ہے۔
تاہم اس سے قبل میئر کراچی کے اس بیان سے متفق ہوں کہ پہلے ہنگامی بنیادوں پر کراچی کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں، لیکن میری ذاتی رائے کے مطابق وفاقی حکومت جو بھی فنڈ جاری کرے، اس پر نگران کمیٹی ضروری ہے۔ کیوں کہ فنڈ تو صوبائی حکومت کے بقول اربوں روپے کے شکل میں دیے جا چکے ہیں، لیکن یہ بھاری رقوم کہاں لگیں، کس نے لگائیں اور اس کے باوجود کراچی کے مسائل جوں کے توں کیوں ہیں؟ یہ اہم سوالات ہیں جن کے جواب بہرحال ارباب اختیار کو دینا ہیں۔
آئین کی شق 149(4) کی صورتحال بھی ویسے ہی ہے جیسے رینجرز کو امن و امان قائم کرنے کے لیے وفاق نے کراچی میں خصوصی اختیارکئی عشرو ں سے دیاہوا ہے۔ گورنر راج کی افواہیں بھی اڑتی رہی ہیں، لیکن اس قسم کی افواہوں سے صوبائی خود مختاری پر سخت ضرب لگنے کا احتمال رہتا ہے ۔ گورنر راج ہو یا پھر آئین کے کسی بھی انتظامی معاملات کو سلب کرنا، آئین کے تحت ہی ہوتا ہے، لیکن اس کے مضمرات سے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ دیکھنے میں آئے ہیں۔
وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر سندھ کے علاقوں میں درپیش مسائل پر سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ کس جماعت کو کس علاقے نے کتنا ووٹ دیا۔ حکومت بننے کے بعد اربابِ اختیار کے فرائض میں شامل ہوجاتا ہے کہ وہ تمام علاقوں میں بلاامتیاز عوامی مسائل حل کریں۔ بلاشبہ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کو اپنی سیاسی بقا کے لیے عوام کے مسائل حل کرانے کی ضرورت ہے، لیکن وہ تاحال ناکامی سے دوچار ہیں۔
تحریک انصاف کو مینڈیٹ ملا ہے، لیکن صوبائی حکومت کے بغیر وفاق براہِ راست کوئی نیا تجربہ نہیں کرسکتا۔ علی زیدی کی کراچی صفائی مہم بدترین مثال کی صورت میں موجود ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے لیے تینوں بڑی جماعتوں کو عوام میں کچھ کرکے دکھانا ہے، لیکن ایک دوسرے کی راہ میں روڑے اٹکانے یا نان ایشوز اٹھانے کی وجہ سے کراچی کے عوام تینوں جماعتوں سے ہی بے زار ہیں۔ جس کے منفی اثرات سے تمام حکمران جماعتیں شدید متاثر ہوسکتی ہیں۔
اس لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اپنے مینڈیٹ کے مطابق کراچی کے مسائل کو جلدحل کرانے کی کوشش کی جائے۔ کیوں کہ یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔