بالآخر دنیا کا ضمیر جاگنا شروع ہوگیا اور کشمیر ہر سطح پر زیرِ بحث آنے لگا۔ ملالہ یوسف زئی نے کشمیر پر چند ایک ’’ٹویٹ‘‘ کیں، تو لاکھوں لوگوں نے انہیں پڑھا اور شیئر کیا۔ نوبل انعام یافتہ عالمی شہرت کی حامل ملالہ نے کشمیر یوں پر گزرنے والی قیامت کا درد بھرے اور مؤثر انداز میں ذکر کیا، تو بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا ٹرولرز نے ایک کہرام مچا دیا۔ جوابی یلغار اور انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش میں کشمیر خوب اُجاگر ہوا۔
اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر وقاص علی کے طلبہ نے پانچ اگست کے بعد کشمیر پر عالمی ذرائع بلاغ میں چھپنے والے مضامین، خبروں اور تبصروں کی ایک فہرست مرتب کی، جو حوصلہ افزا ہی نہیں، خوش کن بھی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے پانچ اگست سے اب تک 114، واشنگٹن پوسٹ 98، فارن پالیسی 12، بلوم برگ 28، ٹائم میگزین سات اور سی این این نے 18 رپورٹیں، خبریں اورتبصرے شائع یا نشر کیے۔ بی بی سی اور الجزیرہ تو روزانہ کی بنیاد پر خبریں اور تجزیہ نشر کرتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا اندھیر نگری چوپٹ راج نہیں۔ ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا‘‘ نے کرفیو اور لاک ڈاؤن کے خاتمے کے حوالے سے ایک زبردست مہم شروع کی۔ ہزاروں لوگ اب تک اس مہم کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک ماہ سے کشمیریوں کی خیریت کی کوئی اطلاع نہیں۔ ذرائع ابلاغ اور رابطوں پر پابندی نے 80 لاکھ شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ یہ طرزِ عمل شہری آزادیوں پر بدترین حملہ ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے نہ صرف خود خطاب کیا، بلکہ 58 ممالک کے اشتراک سے ایک بیان بھی جاری کرایا جس میں کشمیر کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
9 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر مشیل باشلے نے جنیوا میں جاری انسانی حقوق کونسل کے 42ویں اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع مواصلات، پُرامن اجتماعات پر پابندی اور مقامی سیاسی قیادت کی گرفتاریوں پر تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت جموں و کشمیر میں لاک ڈاؤن اور کرفیو میں نرمی لائے، اور انسانی حقوق کی پاس داری اور تحفظ کرے۔ انسانی حقوق کونسل کی سربراہ نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ ’’کشمیریوں کے مستقبل کے حوالے سے کسی بھی فیصلہ سازی میں کشمیری عوام کی خواہشات اور رائے کو شامل کیا جائے۔‘‘
برسلز سے کشمیریوں کے مخلص اور بے لوث لیڈر چیئرمین کشمیر کونسل ای یو علی رضا سید نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کی گھمبیر صورتحال پر یورپی پارلیمنٹ میں منگل 17 ستمبر کو اسٹراسبرگ میں بحث ہوگی۔
یاد رہے کہ قبل ازیں یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی بھی دو ستمبر کو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بحث کرچکی ہے۔ اجلاس سے قبل وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے برسلز میں کئی ملاقاتیں کیں۔ ’’کشمیری سیکنڈے نیوین کونسل‘‘ کے ایگریکٹو ڈائریکٹر سردار علی شاہ نواز خان نے بتایا کہ نارویجن پارلیمنٹ میں اکتوبر کے سیشن میں کشمیر ایک بار پھر زیرِ بحث آئے گا۔ علی شاہ نواز گذشتہ کئی دہائیوں سے سیکنڈے نیوین ممالک میں کشمیر پر رائے عامہ اور سرکاروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نائن الیون کے بعد سے اب تک تقریباً 18 بار ناروے کی پارلیمنٹ میں کشمیر کسی نہ کسی حوالے سے زیرِ بحث آچکا ہے۔
بوسٹن سے انسانی حقوق کی علمبردار محترمہ بینہ سرور نے بتایا کہ گلوبل اسٹینڈ آؤٹ کے نام سے قائم ایک پلیٹ فارم اگلے ہفتے دنیا بھر میں کشمیریوں سے یکجہتی کے مظاہرے کر رہا ہے۔ امریکہ ہی کی ایک اور پروفیسر نے بتایا کہ وہ نیویارک میں کشمیر پر ایک بڑے یکجہتی مارچ کا اہتمام کر رہی ہیں، جہاں لوگوں کو بتایا جائے گا کہ ’’مقبوضہ علاقوں‘‘ یعنی فلسطین اور کشمیر کا کیا مطلب ہے؟ اس پروگرام میں امریکی، فلسطینی اور کشمیری پروفیسرز حقِ خود ارادیت پر لیکچر دیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے مظفر آباد کے جلسے میں کئی اہم باتیں کیں، جن پر بہت کم بحث ہوئی۔ انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو جگانے کی بڑی مہارت سے کوشش کی۔ سوا ارب مسلمانوں کو بی جے پی کے طرزِ سیاست اور حکمرانی سے لاحق خطرات سے آگاہ کیا۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کے بجائے رائے عامہ کو مخاطب کرکے زبردست سیاسی دانش کا مظاہرہ کیا۔ کیوں کہ مسلم حکمران زیادہ تر بے حس ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے جذبات سے لاتعلق بھی ہوچکے ہیں۔
دوسرا اہم نقطہ جو وزیر اعظم کی تقریر میں نوٹ کرنے والا تھا، وہ کشمیریوں کو پورے تنازعہ میں ایک مسلمہ یا بنیادی فریق کے طور پر پیش کرنا ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ’’کشمیریوں کو ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کے فیصلے کا حق ہے،جو کشمیر کے لوگ چاہتے ہیں وہ ہمیں منظور ہے۔‘‘ یہ وہ اعلان تھا جسے سننے کے 70 برسوں سے کشمیری منتظر تھے۔ اس بیان نے کشمیریوں کے دل جیت لیے کہ ’’محبت ہے فاتحِ عالم۔‘‘ یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوئی کہ پاکستان محض ایک قطعۂ زمین کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کے حقوق کے لیے تڑپ رہا ہے۔ اسے کشمیریوں کے محفوظ مستقبل کی فکر ہے۔ یہ جذبہ، اساس، انسانیت اور جمہوریت کے خمیر سے اٹھا ہے۔ آزاد کشمیر کے جھنڈے کو قومی پرچم کے ساتھ عزت اور پیار کے ساتھ اٹھا کر اور گلے لگا کر یکجہتی کے جس بے مثال جذبے کا مظاہرہ کیا گیا، اگر وہ قائم رہا، تو مزاحمت کی ایک طاقت ور اور ناقابلِ شکست لہر اٹھے گی۔
آخری بات وزیر اعظم نے کنٹرول لائن توڑنے سے منع کرکے اچھا قدم اٹھایا۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ بے بسی اور مایوسی کے عالم میں کنٹرول لائن کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ عالمی برادری کو آزمانے کا موقعہ ملنا چاہیے۔ عالمی اداروں کے علاوہ دیگر پلیٹ فارمز بھی کشمیر پر متحرک ہو رہے ہیں۔ تحمل کی اس پالیسی کے مثبت ثمرات نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ کشمیر سے ستمبر کے آخر تک لاک ڈاؤن کی کیفیت تمام ہوجائے گی۔ اس وقت تک اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کی تقاریر کے نتائج بھی سامنے آچکے ہوں گے لیکن آزادی پسند لیڈروں اور کارکنوں کی رہائی کا طویل عرصے تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔