حالیہ ایک مشاعرے میں حضرتِ اقبال شاکرؔنے شعرا کی روز افزوں بڑھتی تعداد اور شعر کے گرتے معیار پر اپنے خیالات کا اظہار دبنگ انداز سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ماشاء اللہ، آج دودھ پیتے بچے بھی شعر موزوں کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں، اور اگر معیار بارے پوچھا جائے، تو ’’گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل!‘‘
حضرت نے آخر میں سامنے بیٹھے سوات کے قومی شاعر محمد حنیف قیسؔ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ سفید ریش مشقِ سخن میں لگ بھگ 45 سال کا طویل عرصہ گزار کر آج اس مقام پر کھڑے ہیں۔ اسی سٹیج سے آپ بھی داد سمیٹنے کی کوشش فرماتے ہیں اور ذکر شدہ بچے بھی۔‘‘
کچھ اس سے ملتی جلتی کہانی ایک اور سفید ریش حضرتِ ہمایوں مسعود صاحب کی بھی ہے۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ آپ اول اول فراسؔ تخلص کرتے تھے۔ آج سے آٹھ دس سال پہلے جب وہ مشاعراتی شاعر نہیں تھے، اپنی ایک آزاد نظم ’’زما شیرینہ‘‘ ان کے مخصوص انداز میں سُنی، تو بے اختیار منھ سے کلمۂ تحسین ’’واہ‘‘ نکلا۔ آپ کے سنانے کا انداز بھی آپ ہی کی طرح منفرد ہے۔ دھیمی نہ زیادہ اونچی آواز، نپا تلا انداز، الفاظ کی نشست و برخاست اور اس پر سر کوبرمحل وقتاً فوقتاً ہلکا سا جھٹکا دینے کا عمل غضب ڈھاتا ہے۔
شاید موصوف کو یاد نہ ہو، مگر روزنامہ مشرق کے دفتر میں عطاء الرحمان عطاؔ(چیئرمین شعبۂ پشتو جہانزیب کالج)، محمد امجد (شعبۂ انگریزی جہانزیب کالج) اور سینئر صحافی فیاض ظفر کے سامنے مَیں نے انہیں کلام، مجموعہ کی صورت میں چھاپنے کا حقیر سا مشورہ دیا تھا۔ آج جب ’’ستا د یاد وگمی خورے شوے‘‘ میرے ہاتھ میں ہے، اور اس پر زیرِ نظر تحریری تأثر آپ حضرات پڑھ رہے ہیں، تو شاید اس کی تحریک دلانے والوں میں سے ایک مَیں بھی ہوں۔

قارئین، ہمایون مسعود کا ذکر شدہ شعری مجموعہ گھول کر پینے کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بھلے ہی آپ کی غزل ہم عصر شعرا کے پائے کی ہو، آپ کا قطعہ بھی آپ کی شخصیت کی طرح انفرادیت لیے ہوئے ہو، مگر آپ کی نظم (معریٰ و آزاد) کمال کی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب غزل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، روایت سے بغاوت اور بطورِ خاص آزاد نظم کے ساتھ میدان میں اترنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے ذیل میں دی جانے والی نظم ملاحظہ ہو:
ماسرہ ناستہ پہ یو سیٹ دَ ھغی خکلی جینئی
بس دغہ ضد ؤ چی دَ جاز دا ستڑے اوگد سفر
مونگ پہ خندا پہ خوشحالئی او پہ خبرو لنڈ کڑو
زما خواہش ؤ…………………………
چی دَ زیست نہ میسر د فرصت دغہ لمحات
پہ پٹو سترگو ستا پہ یاد او تصوّر کی تیر کڑم
مَیں نے جتنی پشتو شاعری پڑھی ہے، اس میں حسنِ مطلع کی مثال کم ہی ہاتھ آئی ہے، اس حوالہ سے بھی آپ کی انفرادیت برقرار ہے:
تصور کی می مُسیگی، ھغہ دوہ ملالی سترگی
اوس لہ ما کلہ ھیریگی، ھغہ دوہ ملالی سترگی
سہ درنی درنی غڑیگی، ھغہ دوہ ملالی سترگی
گل غوٹئی دی چی غوڑیگی، ھغہ دوہ ملالی سترگی
اس حوالہ سے ایک اور مثال یوں ہے:
کہ آسودہ ھم ڈیر دے، خو افسردہ دے ژوندون
بغیر لتا نہ گرانے، کہ دے نو نہ دے ژوندون
سومرہ یوازی یمہ، سومرہ پیکہ دے ژوندون
ظاہری شور ھم دے او پہ مرگ اودہ دے ژوندون
زیرِ تبصرہ کتاب میں ایک آزاد نظم ’’شملہ پہ اور اوسیزہ‘‘ میں ایک بے بس بہن اپنے بھائی کو کچھ یاددہانی کرا رہی ہے۔ دراصل سوات پر طالبان کی یلغار کے دور میں مذکورہ نظم لکھی اور سنبھال کر رکھی گئی تھی۔ ’’داسی گورکن لٹووم‘‘ اہلِ سوات کی بے حسی پر لکھا گیا نوحہ ہے جسے آپ مرثیہ گردانتے ہیں۔ ’’خپلی مور تہ‘‘ وہ خاص نظم ہے، جو آپ نے اپنی استانی کی وفات پر لکھی ہے۔ اس کے علاوہ ’’خدائے پاک تہ‘‘، ’’پختون فوجی تہ‘‘ ، ’’د شاعر مرگ‘‘ اور ایک معریٰ نظم ’’تنہا‘‘ خاصے کی چیز ہیں۔
کتاب میں شامل آزاد نظم ’’پاخہ رنگونہ‘‘ پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ آپ کسی دور میں مصور بھی رہ چکے ہیں یا پھر آپ کو اس کی پرکھ ہے۔
کتاب کے صفحہ نمبر 61 پر غزل کے ذیل میں دیے جانے والے پانچویں شعر نے مجھے اردو کی ایک پرانی نظم یاد دلائی، اولاً شعر ملاحظہ ہو، ثانیاً وہ پیاری نظم:
پہ بارانہ کی دَ بوڈئی دَ ٹال حسین امتزاج
وخت دَ لیدو ؤ چی ژڑا کی پہ خندا ھم وہ
’’اک دن مَیں نے اس سے پوچھا
دھوپ میں بارش ہوسکتی ہے؟
یہ سن کے وہ ہنسنے لگی
ہنستے ہنستے رونے لگی
اور دھوپ میں بارش ہونے لگی‘‘
مجموعہ میں اور بھی کئی خاص چیزیں ہیں، جن پر یہاں بحث کرنے سے بہتر ہوگا کہ کتاب اٹھا کر انہیں خود پڑھا جائے۔ جاتے جاتے وہ نظم (زما شیرینہ) ملاحظہ ہو، جسے آج سے آٹھ دس سال پہلے ہمایوں مسعود کے مخصوص انداز میں سنا تھا۔ ساتھ مجموعہ ہی سے لیے گئے دو اشعار ملاحظہ ہوں:
’’او سہ رنگی بہ
زما شیرین زما پہ ذہن کی وگمی خوروی
پہ دی وڑوکی پارک کی
د نسوانی حسن بی مثلہ نمونی جمع دی
زما خیالات پہ لبنانئی یا پہ مصرئی یا پہ شامئی خخیگی
عن دغہ پہ شنہ جینز کی ملبوس فلسطینیانی حوری
سنگہ د خپلو شفق بیزو خورو زلفو پہ شان
خوری وری گرزی د خپل حسن جلوی خوروی
او دغہ پہ تور سکرٹ کی ملبوس حسین صورتہ شامئی
لاکٹ ئی سنگ پہ نیم عریانہ غاڑہ
د ھر یو ساہ د زیر و بن سر چوتیگی لگی
او د لافانی حسن میرمنی لبنانئی او مصریٔ
ڈک بدنونہ ئے سنگ مڑی سترگی ھوس نہ ڈکئی
خو آہ، زما حغہ شیرینہ سر تر پایہ حیا
د دوی د وڑاندی بہ جلوی ئی تتے تتے خکاری
خو یو زل بیا زما پہ غیگہ کی خورہ ورہ شوے‘‘
’’ستا دَ یاد وگمی خورے شوے‘‘ مینگورہ شہر کے ہر اچھے بک سٹال کے علاوہ شعیب سنز کے ساتھ باآسانی ہاتھ آسکتی ہے۔ یہ کتاب بھی شعیب سنز کی مطبوعات میں سے ایک ہے۔
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔