جیتی ہوئی ٹیم یا اس کے کھلاڑیوں پر ہر کسی کی نظر جمی رہتی ہے، مگر کیا کبھی کسی نے کھیل ہارنے کے بعد ہاری ہوئی ٹیم کے کھلاڑیوں کا بغور جائزہ لیا ہے؟یہ وہ فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے جب یا تو کھلاڑی شکست و بیم کے سائے میں اس نازک موقعے کا دلیری سے مقابلہ کرکے کندن بن جاتا ہے، یا پھر مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر گمنام ہوجاتا ہے۔شاید اسی لیے ابراہام لنکن نے اپنے جگر گوشے کے اتالیق کو ایک لمبا چوڑا خط لکھا تھا اور اس میں اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’میرے بیٹے کو دو باتیں ضرور سمجھانا۔ اول، جیت کا مزا کیا ہوتا ہے! دوم، شکست برداشت کیسے کی جاتی ہے!‘‘
2 سال قبل جولائی 2017ء میں مستیج جھیل کے دیدار کا قصد کر بیٹھے۔ رختِ سفر باندھ کر جھیل کی طرف اونچے عزم لیے روانہ ہوئے، مگر ناقص حکمت عملی اور موسم کی خرابی کی وجہ سے ہمیں شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ آدھے راستے سے وہ واپسی کا سفر مجھے آج بھی یاد ہے، جانشئی بانڈہ میں کسی ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح بوجھل قدموں کے ساتھ واپسی ہمیں ہماری کمیوں اور کوتاہیوں کا طعنہ دے رہی تھی۔ اس تلخ تجربے کی روشنی میں امسال (اگست 2019ء) میں ہماری ٹیم (اُدھیانہ ٹریکرز) کے 9 ممبرز نے چیئرمین فضل خالق کی رہنمائی میں نہ صرف جھیل تک رسائی حاصل کی، بلکہ اس کی خوبصورتی کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا اور کئی علاقائی و قومی نشریاتی اداروں کی مدد سے اہلِ پاکستان کو ٹریکنگ کے لیے ایک نئی جگہ مہیا کردی۔ بالفاظِ دیگر، اگر ہم ایک بار ہار کر ہمت ہار جاتے، تو آج مستیج جھیل اہلِ پاکستان کی آنکھوں سے اوجھل ہی رہتی۔
مستیج جھیل کی وجۂ تسمیہ بڑی عجیب ہے۔ ہمارے نوجوان گائیڈ عمر واحد کالامی کے مطابق ’’مستیج ہماری مقامی زبان میں ’مستی کی جگہ‘ کو کہتے ہیں۔ یہاں تک رسائی بس مست لوگ ہی حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘
اس لفظ (مستیج) کے آخری دو حروف ہٹا دیے جائیں، تو سہ حرفی لفظ ’مست‘ باقی رہ جاتا ہے۔ مستیج تک پہنچتے ہی ہم پر ایک عجیب سی مستی چھاگئی اور اسی وقت مجھے اپنے گائیڈ کی بات یاد آگئی کہ واقعی یہاں مست لوگ ہی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
مستیج جھیل کے لیے رختِ سفر باندھنے والے خیبر پختونخوا کی خوبصورت ترین وادی ’’سوات‘‘ تک جنرل ٹرانسپورٹ کا سہارا لے سکتے ہیں۔ مینگورہ سے بحرین تک روڈ کی حالت بہتر ہے، مگر بحرین سے آگے کالام تک روڈ خستہ حال ہے۔ ہائی ایس گاڑیوں کے علاوہ فیلڈر نامی گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں کالام تک ٹرانسپورٹ کی سہولت دیتی ہیں۔ بہتر بات یہ ہوگی کہ ناشتہ مینگورہ شہر میں کیا جائے، جہاں اچھے ریسٹورنٹ میسر ہیں۔ اس کے بعد دوسرا اسٹاپ بحرین ہوجائے، جہاں دریا کنارے ایک کپ پیالی چائے اور روغنی چھولے کھانے کا اپنا مزا ہے۔ اگرچہ بحرین بازار اتنا بڑا نہیں، مگر اس میں روزمرہ ضرورت کی ہر چیز مناسب داموں مل جاتی ہے۔
بحرین سے آگے چوں کہ روڈ کی حالت خراب ہے، اس لیے آگے کالام تک دو ڈھائی گھنٹے کا سفر کافی صبر آزما ہے۔ کالام بازار آخری اسٹاپ کے طور پر راستے میں آتا ہے، جہاں بحرین بازار کی طرح ہر چیز مل جاتی ہے۔ کالام بازار کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں کے ریسٹورنٹس میں لاہور، فیصل آباد، کراچی اور دیگر شہروں کے مشہور کھانے مناسب داموں میں مل جاتے ہیں۔ یہاں پیٹ کی پوجا پاٹ کی غرض سے اک آدھ گھنٹا رُکنا گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔

وادئی اَنَکار کا خوبصورت منظر، جہاں سے مستیج جھیل کے لیے پیدل سفر شروع ہوتا ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

کالام سے آگے ’’وادئ اَنَکار‘‘ کے لیے فور بائے فور گاڑی کے ذریعے سفر شروع ہوتا ہے، جہاں ’’بلیو واٹر‘‘ نامی جگہ آج کل مقامی و غیر مقامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس مقام کی وجۂ تسمیہ اس کا پانی ہے جس پر نیلے امبر کا گمان ہوتا ہے۔ بلیو واٹر دراصل دو آبہ ہے۔ اسے پانی کوہ جھیل (جسے کچھ مقامی لوگ اندرب یا اندراب جھیل بھی کہتے ہیں) اور مستیج سے وافر مقدار میں ملتا ہے۔ جو مقامی و غیر مقامی سیاح ٹریکنگ کا شوق نہیں رکھتے، ان کے لیے بلیو واٹر کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ فلک بوس پہاڑ، گھنے جنگلات، بل کھاتی ندی، میٹھے پانی کے جھرنے اور پرندوں کی مسحور کن چہچہاہٹ ماحول کو دو آتشہ کردیتی ہے۔
بلیو واٹر میں سیاحوں کا محبوب مشغلہ نیلے پانی کی ندی میں چارپائی ڈال کر دراز ہونا ہے۔ ایسے میں اگر وہاں قائم چھوٹے سے ریسٹورنٹ والا گرم گرم چائے کی بھاپ اُڑاتی پیالی اور تلے ہوئے گرما گرم پکوڑے پیش کرے، تو آدمی کے منھ سے بے ساختہ یہ آیت نکلتی ہے:’’فَبِاَیِ آلاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان!‘‘

ایک سیاح بلیو واٹر کے مقام پر پانی میں چارپائی ڈالے آرام کر رہا ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

بلیو واٹر سے آگے مستیج کے لیے پیدل مسافت شروع ہوجاتی ہے۔ مستیج جھیل کے دیدار کے لیے 2 آپشن پیشِ نظر رکھیں۔ پہلا، اگر آپ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے صبح 8 بجے سفر کا آغاز کریں، تو آپ باآسانی دوپہر 3 بجے تک وادئی اَنَکار پہنچ سکتے ہیں۔ یہ پورا دن آپ مذکورہ وادی میں گزار لیں اور رات کو بلیو واٹر کے ایریا میں کیمپنگ کرلیں۔ اگلی صبح آپ سویرے سویرے مستیج کے لیے روانہ ہوجائیں۔ دوسرا آپشن، جیسے ہی وادئی اَنَکار پہنچ جائیں، پیدل سفر شروع کریں اور 3 تا 4 گھنٹوں کی صبر آزما مسافت کے بعد جنت نما ’’جانشئی بانڈہ‘‘ میں پہلی رات گزارنے کی خاطر کیمپنگ کریں۔

وادئی اَنَکار کے گھنے جنگل کے بیچ واکنگ ٹریک، آگے جانشئی بانڈہ کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

وادئی اَنَکار سے آگے دوراہا آتا ہے۔ جانشئی بانڈہ تک رسائی کے لیے اس مقام پر ایک راستہ اوپر پہاڑ کی چوٹی کی طرف جاتا ہے، جو ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اس میں بسااوقات آپ کو اپنا راستہ خود بنانا پڑتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا راستہ گرچہ نسبتاً لمبا ہے، مگر کسی حد تک آسانی کے ساتھ تین سے چار گھنٹے میں جانشئی بانڈہ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ انسانوں اور جانوروں کے نقل و حمل کی وجہ سے یہ راستہ بالکل کچی سڑک کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ یہ راستہ کبھی تھوڑی سی چڑھائی، کبھی اترائی اور کبھی بالکل سیدھی شکل اختیار کرکے آپ کو جانشئی بانڈہ تک اچھی خاصی ہائیکنگ کے بعد پہنچاتا ہے۔

جانشئی بانڈہ شروع ہوا چاہتا ہے، جہاں کیمپنگ کے لیے اچھی خاصی جگہ ملتی ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

جانشئی بانڈہ پر جنت کے ٹکڑے کا گمان ہوتا ہے۔ یہاں چرواہوں کے کچے کوٹھے ملتے ہیں۔ اس کے ساتھ چراہ گاہیں اور میدان ہیں، جہاں بلاجھجھک کیمپنگ کی جاسکتی ہے۔ مستیج جھیل سے نکلنے والا پانی ایک ندی کی شکل میں بانڈہ کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے۔ قدرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ یہاں جلوہ گر ہے، مگر افسوس کہ یہ رعنائی بہت جلد ماند پڑنے والی ہے، کیوں کہ بانڈہ میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری ہے۔

ٹمبر مافیا کی بے دریغ کٹائی کا منظر، جہاں درختوں کی پیندے میں آگ لگائی جاتی ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

ٹمبر مافیا کٹائی کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک زبردست حربہ استعمال کرتا ہے، درختوں کے پیندے میں آگ روشن کرکے انہیں پہلے سُکھا لیا جاتا ہے، اور اس کے بعد انہیں مردہ یا بے کار قرار دے کر کاٹنے کی راہ ہموار کرلی جاتی ہے۔ اگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی تو 3 سال تک جانشئی بانڈہ صحرا کی شکل اختیار کرلے گا۔

جانشئی کے آخری کچے کوٹھے، جہاں سے آگے مستیج بانڈہ کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

جانشئی بانڈہ سے آگے مستیج بانڈہ تک پورے 4 گھنٹے کا مزید سفر باقی ہے جو بہت ہمت طلب ہے۔ یہاں سے آگے ٹری لائن ختم ہوجاتی ہے اور بڑے بڑے پتھروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ان کے درمیان راستہ نکالتے نکالتے گلیشئرز اور میٹھے پانی کی ندی توانائی کا ذریعہ بنتی ہے۔
مستیج بانڈہ تقریباً اس طرف سب سے آخری بانڈہ ہے، جہاں چرواہوں کے 2 یا 3 کچے کوٹھے مل جاتے ہیں۔ اس سے آگے بندہ نہ بندے کی ذات۔ سفر کے دوران میں بتایا گیا کہ آگے کی چوٹیوں میں مارخور اور ریچھ دیکھے گئے ہیں۔ مستیج بانڈہ جیسے دُور دراز پہاڑی علاقے میں ہمیں ایک سفید ریش بابا نے گُڑ کی تگڑی چائے پلائی۔ اس ایک پیالی چائے کی قیمت بھلا کون ادا کرسکتا ہے جہاں ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے والے انسان، محدود وسائل میں آپ کی خاطر داری کرنے پر تُل جائیں۔
مستیج بانڈہ میں گوکہ درخت نامی کوئی شے نہیں مگر یہاں تقریباً دو ڈھائی سو فٹ کی بلندی سے نیچے گرنے والی آبشار اور اس کا مسحور کن شور تازگی و فرحت کا احساس دلاتے ہیں۔ مقامی طور پر مذکورہ آبشار کا کوئی نام نہیں تھا، اس لیے دوستوں کے مشورہ سے اس کا نام ’’مستیج آبشار‘‘ ہی رکھ دیا گیا۔ مذکورہ آبشار اسی پہاڑ کی چوٹی پر قائم مستیج جھیل سے خارج ہونے والے پانی کی ایک بڑی مقدار سے وجود پاتی ہے۔

مستیج آبشار، جس کا پانی پہاڑ کی چوٹی پر قائم جھیل سے نیچے گرتا ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

مستیج بانڈہ میں آدھا گھنٹا گزارنے کے بعد ہماری ٹیم آخری اور اب تک کی سب سے مشکل مرحلے کے لیے تیار ہوگئی۔ آبشار سے ڈیڑھ دو گھنٹے مسلسل چوٹی کی طرف مسافت طے کرنے کے بعد جب جھیل پر پہلی نظر پڑتی ہے، تو تمام تر تھکاوٹ کافور ہوجاتی ہے۔ بندہ نہ بندے کی ذات، رگ و پے میں سرائیت کرتا سکون اور جھیل کا پُرسکون نظارہ۔

مست لوگوں کی جھیل "مستیج” کا پہاڑی کے اوپر سے خوبصورت نظارہ۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

مستیج جھیل، سوات کی دیگر جھیلوں سے یکسر مختلف ہے۔ چاہے وہ اس کی ساخت ہو، رنگ ہو، پانی کی مٹھاس ہو، وعلیٰ ہذاالقیاس۔ یہ پہاڑ کی چوٹی سے بالکل دل کی شکل کی بنی نظر آتی ہے۔ نیلے امبر کی طرح اس کا پانی بھی نیلاہٹ لیے ہے۔ دیگر جھیلوں کا پانی ٹھنڈا ہوتا ہے، مگر اس کا ’’شیطان گوٹ جھیل‘‘ (Devil’s Corner Swat) کی طرح نیم گرم سا محسوس ہوتا ہے۔ جھیل کے اردگرد رنگا رنگ خود رُو پھول دیکھنے کو ملے جو اَب تک سوات کی دیگر جھیلوں کو سیر کرتے کم از کم میں نے نہیں دیکھے۔

مستیج جھیل کے پُرسکون ماحول میں جھیل کی عکس بندی جاری ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

مستیج جھیل سطحِ سمندر سے تقریباً 13 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کی سیر کے لیے جولائی اور اگست کے مہینے آئیڈیل ہیں۔

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔