جس کی لاٹھی اس کی بھینس (کہاوت کا پس منظر)

طاقتور ہی کا سب کچھ ہے۔ جب کوئی طاقتور اپنے بَل بوتے پر زبردستی کسی کمزور کا مال اپنے قبضے میں کر لے، تو یہ مثل کہی جاتی ہے۔ اس مثل کے وجود میں آنے کا سبب ایک دلچسپ حکایت ہے جو اس طرح ہے:
’’ایک بار کوئی شخص بازار سے ایک بھینس خرید کر اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ راستے میں سنساں جنگل پڑتا تھا۔ جس وقت وہ سنسان راستے سے گزر رہا تھا، تو راستے میں ایک چور ملا۔ چور نے اس کا راستہ روک لیا اور ڈرا دھمکا کر کہا کہ بھینس میرے حوالے کردو۔ بھینس والے نے آنا کانی کی، تو چور نے لاٹھی تان کر کہا۔ اگر تم بھینس نہیں دو گے، تو اسی لاٹھی سے تمہارے سر کو چکنا چور کردوں گا۔ پھر تم کو بھینس کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اچھائی اسی میں ہے کہ بے چوں و چرا بھینس میرے حوالے کردو اور اپنے گھر کا راستہ لو۔ بھینس والے نے سوچا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔ کہیں جان پہ نہ بن آئے۔ بھینس دینے ہی میں عافیت ہے۔ اس نے بھینس کو چور کے حوالے کر دیا اور نہایت عاجزی و انکساری سے کہا۔ اب یہ بھینس آپ کی ہے۔ راستہ سنسان ہے، اگر تم مجھے اپنی یہ لاٹھی دے دو، تو میں اس کے سہارے اپنے گھر تک پہنچ جاؤں گا۔ چور نے سوچا، قیمتی بھینس تو مجھے مل گئی ہے، اب لاٹھی دینے میں کیا مضائقہ ہے۔ اس نے بھینس والے کو ااپنی لاٹھی دے دی۔ چور جوں ہی بھینس کو لے کر چلنے لگا۔ اس شخص نے لاٹھی تان کر کہا، اب کہاں جاتا ہے؟ تیری عافیت اسی میں ہے کہ بھینس کو چھوڑ کر بھاگ جا۔ ورنہ تیرے سر کے دو ٹکڑے کردوں گا۔ چور گھبرا گیا۔ معاملہ الٹا ہوگیا تھا۔ موقعہ کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اس نے بھینس چھوڑ دی اور لاٹھی واپس مانگی۔ اس شخص نے جواب دیا، اب یہ لاٹھی تیرے ہاتھ آنے والی نہیں۔ کیوں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔‘‘
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 117 سے انتخاب)