تقریبات میں جب مہمانوں کو گلدستہ پیش کرنے کا مرحلہ آتا ہے، تو اکثر نظامت کرنے والے اعلان کرتے ہیں کہ مہمان کو ’’پھولوں کا گلدستہ‘‘ پیش کیا جائے گا۔ حالاں کہ گلدستہ کہنا کافی ہے۔ کیوں کہ گُل کا مطلب پھول ہی ہے۔ گلدستہ اگر پھولوں کا نہیں ہوگا، تو کیا پتھروں کا ہوگا؟ لیکن اب تو ٹی وی پر بھی کسی محفل کا حال بیان کرتے ہوئے یا ہوائی اڈے پر غیر ملکی مہمانوں کے استقبال کی خبر نشر کرتے ہوئے خبریں پڑھنے والے بڑی سنجیدگی سے ’’پھولوں کا گلدستہ‘‘ پیش کیے جانے کا اعلان کرتے ہیں، لیکن اسے سن کر ہمیں ہنسی آجاتی ہے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے بعض لوگ ’’آبِ زم زم کا پانی‘‘ کہتے ہیں، حالاں کہ آب کا مطلب پانی ہی ہے۔ یا تو آبِ زم زم کہنا چاہیے یا زم زم کا پانی۔
اسی طرح ’’سنگِ مرمر کا پتھر‘‘ بھی سنا گیا ہے، لیکن اس میں بھی ایک لفظ اضافی ہے۔ لفظ سنگ کا مطلب پتھر ہے۔ لہٰذا سنگ مرمر کہنا کافی ہے۔ یا پھر مرمر کا پتھر کہہ سکتے ہیں۔
ایسی ایک اور غلطی جو عام ہے وہ ’’فصلِ بہار کا موسم‘‘ ہے۔ اس ترکیب میں ’’فصل‘‘ کا مطلب موسم ہے (فصل کے اور معنی بھی ہیں)۔ گویا فصلِ بہار کہنا کافی ہے یا موسمِ بہار کہیے۔ بہار کا موسم بھی کہہ سکتے ہیں۔
پھولوں کا گلدستہ بولنا یا لکھنا تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے ’’سونے کا طلائی تمغا‘‘ یا ’’لبِ دریا کے کنارے۔‘‘ ظاہر ہے کہ طلائی کا مطلب ہی ہے سونے کا۔ دوسری ترکیب میں ’’لب‘‘ کا لفظ کنارے ہی کے معنی میں آیا ہے۔ گویا صرف ’’گلدستہ‘‘ کہنا کافی ہے۔ ’’پھولوں کا گلدستہ‘‘ مضحکہ خیز بات ہے۔
(ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے شائع شدہ تحقیقی مقالہ ’’صحتِ زباں‘‘، صفحہ 8 سے انتخاب)