ایطا (Receptive Rhyme) عروضی عیب ہے۔ ایطا، مشرقی شعریات کی اصطلاح ہے۔ اسے شائیگان بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد کسی ایک شعر میں مکمل قافیے یا قافیے کے ایک حصے کو دوبارہ لانا ہے۔ یہ عروضی عیب شمار ہوتا ہے اور ذوق کو گراں اور قبیح لگتا ہے، مثلاً
نگاہ شعلہ نہیں، چہرہ آفتا ب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
آفتاب اور تاب میں ایطا ہے۔ کیوں کہ تاب، آفتاب ہی کا حصہ ہے لیکن تاب معنوی طور پر آفتاب کا حصہ نہیں ہے۔
اساتذۂ فن نے ’’ایطا‘‘ کی بڑی مذمت کی ہے۔ اس کے واضح اصول و ضوابط مرتب کیے ہیں اور اسے جلی و خفی میں تقسیم کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایطا زدہ شعر خواہ اور جتنی خوبیاں رکھتا ہو، لائقِ اعتنا نہیں لیکن ایطائے خفی سے کسی شاعر کا کلام پاک نہیں۔ اس لیے اسے عیب نہیں سمجھنا چاہیے۔
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ’’ادبی اصطلاحات‘‘ مطبوعہ ’’نیشنل بُک فاؤنڈیشن‘‘، اشاعتِ چہارم مارچ، 2017ء، صفحہ نمبر50 سے انتخاب)