آج کل ٹیوٹر پر دو ٹرینڈز ٹاپ پر ہیں۔ ایک ’’مَیں پاکستانی ہوں‘‘ اور دوسرا’’ مَیں افغان ہوں۔‘‘ گھمسان کا رن جاری ہے۔ جو لوگ ’’مَیں افغان ہوں‘‘ لکھتے ہیں، اس کی بنیاد وہ ردعمل ہے کہ ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر جو ایک سیاسی پارٹی کا رکن بھی ہیں، نے خبر پھیلائی کہ فرشتہ کے والدین افغانی ہیں اور بین السطور کہہ دیا کہ پاکستان میں کسی افغانی لڑکی کو ریپ کرنا اور پھر قتل کرنا جائز ہے۔
جو لوگ ’’مَیں افغان ہوں‘‘ لکھ رہے ہیں وہ پاکستانی شہری ہیں۔ وہ جغرافیائی حدود سے زیادہ نسلی حدوں کو اہمیت دیتے ہیں۔
دوسرا گروہ جو ہر بات میں متحرک ہوجاتا ہے اور زیادہ تر بے نام یا جعلی آئی ڈیز سے ٹیویٹس کرتا ہے، سمجھتا ہے کہ جس نے یہ کہا کہ ’’مَیں افغان ہوں‘‘ گویا وہ پاکستان کا مخالف ہوا۔
حیرانی اس بات کی ہوتی ہے کہ پاکستان میں سارے میزائلوں کے نام افغان بادشاہوں یا جنگجوؤں کے نام پررکھے گئے ہیں جیسے غزنوی، ابدالی، غوری وغیرہ۔
دوسری اہم بات جو وہ بھول جاتے ہیں، جب بھی پاکستان میں مردم شماری ہوتی ہے یا پھر نادرا سے شناختی کارڈ بنوائے جاتے ہیں، تو وہاں نسل یا قبیلے کے خانے میں خیبر پختون خوا سے سارے لوگوں کے لیے لفظ ’’افغان‘‘ لکھا جاتا ہے۔ یعنی پاکستان میں افغان نسل کے لوگوں کے وجود کو پاکستان کی ریاست مانتی ہے۔ پھر اس واویلے کی وجہ؟
پاکستانی ریاست کو بنے 72 سال ہی ہوگزرے ہیں اور یہاں مختلف نسلوں کی مختلف قومیں رہتی ہیں، جن میں ہندی یا سندھی، افغان، بلوچ، ایرانی، وسطی ایشیائی اور تبتی وغیرہ سب شامل ہیں۔ اگر اس بات کو سمجھا جائے، تو لڑائی خود بخود ختم ہوجائے گی۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔