جنوبی وزیرستان کی یاترا

شمالی وزیرستان دیکھنے کے بعد پرسوں جنوبی وزیرستان دیکھنے کا موقع ملا۔ 24 اپریل کو وزیراعظم جلسے میں شرکت کے لیے ایم پی اے پی کے 88 بنوں ٹو پختون یار خان کے قافلے کے ساتھ غیور قبائل کے آبائی وطن وزیرستان جانے کا موقع ملا۔ بنوں سے جنوبی وزیرستان جانے کے لیے کئی راستے ہیں۔ ایک راستہ درہ پیزو سے ٹانک اور ٹانک سے وزیرستان براستہ کوٹ مرتضیٰ ہے۔ دوسرا راستہ رزمک سے مکین اور مکین سے وانا تک ہے۔ جنوبی وزیرستان سابقہ فاٹا کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کا رقبہ 6619 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے شمال مغرب میں شمالی وزیرستان ہے۔ شمال مشرق میں ایف آر لکی اور ٹانک۔ مشرق میں ایف آر ڈیرہ اور جنوب میں بلوچستان کا ضلع ژوب واقع ہے۔
جلسہ وانا میں تھا اور ہم نے درہ پیزو والا راستہ اختیار کیا۔ درہ پیزو سے ٹانک 60 کلومیٹر دور ہے۔ راستے میں ٹانک کا علاقہ گل امام آتا ہے۔ یہ علاقے بارانی علاقے ہیں یعنی یہاں محدود کھیتی باڑی ہوتی ہے، جو بارش کے پانی کی محتاج ہوتی ہے۔ ٹانک شہر کے بارے میں خیال تھا کہ یہ چھوٹا سا شہر ہوگا۔ اگرچہ اتنا بڑا نہیں، لیکن زندگی کی تمام سہولیات یہاں دستیاب ہیں۔ البتہ ٹانک کے آس پاس دیہات میں پسماندگی و غربت ہے۔ ٹانک سے آگے وزیرستان کے پہاڑوں کے عین دامن میں کوٹ مرتضیٰ اور ملحقہ علاقے زرخیز ہیں۔ یہاں مکس آبادی ہے، لیکن اکثریت محسود و میانی قبائل کی ہے۔ گومل زام ڈیم کے قیام کے بعد یہاں کی زمینوں کو سیراب کرنے کا ایک منظم سسٹم ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ اگرچہ بندوبستی علاقہ ہے لیکن یہاں بھی دیرپا امن ابھی تک قائم نہ ہو سکا۔ مہینے پہلے ٹانک سے بنوں کے تحصیل دار اغوا ہوئے اور جس دن ہم گئے تھے، اسی دن ایک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کئی ساتھیوں سمیت اغوا کیے گئے۔
ٹانک سے جنوبی وزیرستان کی حدود 20 کلومیٹر کے فاصلے کے بعد شروع ہو جاتی ہیں۔ جوں ہی چیک پوسٹ کا گیٹ کراس ہوتا ہے۔ پہاڑوں کا اور چڑھائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ’’وانا‘‘ جنوبی وزیرستان کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ کوٹ مرتضیٰ سے وانا تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، لیکن یہ پہاڑی اور دشوار گزار راستہ ہے۔ یہ بات نوٹ کی جائے کہ ان 100 کلومیٹر کے فاصلے پر راستے میں صرف ایک پٹرول پمپ ہے اور ایک دو سادہ سے ہوٹل۔ آبادی کا ان 100 کلومیٹر کے دشوار گزار راستے میں نام و نشان تک نہیں۔ آدھے راستے میں گومل زام ڈیم آتا ہے، جو بے حد خوبصورتی کا حامل ڈیم ہے۔ خان پور ڈیم ہری پور سے کئی گنا بڑا اور دلکش نظاروں کا حامل ہے، لیکن افسوس کہ یہاں امن و امان کی وجہ سے ٹور ازم سپاٹ نہ بن سکے۔ لوگ پہلے کونج کے شکار کے لیے آتے تھے۔ آج کل معلوم نہیں کہ شکار ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ وانا سے کچھ فاصلہ پر مشہور بزرگ میچن بابا کا مزار ہے، جو شاہراہِ عام کے دائیں جانب نالہ کے قریب ہے۔
وانا پہنچ کر احساس ہوا کہ یہاں آبادی کس قدر کم ہے۔ چھوٹا سا شہر آباد ہے جہاں کالجز، ہسپتال اور بنیادی ضروریاتِ زندگی دستیاب ہیں، لیکن چیزیں مہنگی ہیں۔ بندوبستی علاقے میں ملنے والا پٹرول جو 100 روپے میں ملتا ہے، یہاں 107 کا مجھے ملا۔ ابتدائی پوائنٹ سے وانا تک 100 کلومیٹر کے فاصلے میں بہت کم درخت دیکھنے کو ملے۔ پہاڑوں کا ایک نہ ختم ہونے ولا سلسلہ ملا۔ آبادی کی کمی کی وجہ سے انسان دن کی روشنی میں بھی ڈر سا جاتا ہے۔ یہاں جتنی آبادی دکھائی دی، ان کی طرزِ زندگی کے بارے میں پتا نہ چل سکا۔
وانا کے جنوب میں اور مغرب میں آبادیاں ہیں۔ وانا سے مکین 72 کلومیٹر اور مکین سے رزمک 8 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ وہاں ایک مقامی شخص نے وانا کے بارے میں معلومات دیں۔ جب مَیں نے کہا کہ یہاں آبادی نہیں، تو اس نے جنوب کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ ان پہاڑوں کے دامن میں مختلف اقوام کافی تعداد میں آباد ہیں۔ وانا میں زیادہ تر مکانات کچے ہیں۔ جس میزبان کے ہاں ہم ٹھہرے اس کے گھر کی چاردیواری کچی تھی، لیکن اندر پکا خوبصورت ویلا تھا۔ حیران تھا کہ ایسا کیوں ہے؟
جنوبی ہو یا شمالی، دونوں وزیرستانوں کا مَیں نے وزٹ کیا۔ دونوں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ جنوبی ہو یا شمالی دونوں میں چند چیزیں مشترک ہیں۔ مثلاً آبادی منتشر اور کم ہے۔ درختوں کا شدید فقدان ہے۔ کھیتی باڑی کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ فضا آلودگی سے پاک اور زبردست ہے۔ یہاں کے لوگ مجبوراً عرب ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ کیوں کہ مقامی طور پر کاروبار غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے تباہ ہے۔ صنعت و کارخانے ندارد، کاشت کاری بھی نہیں۔ اس پہاڑی سرزمین میں اگر نوجوانوں کو روزگار نہ دیا گیا، تو امن کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔