کافرستان میں شادی ہو یا فوتگی، کوئی مذہبی تہوار ہو یا ثقافتی پروگرام یا پھر سماجی رسم رقص تقریباً ہر ایک کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ کافرستان میں رائج مذہب "کیلاش” میں رقص کا اپنا ایک مقام ہے۔ لہٰذا کیلاشی مرد اور خواتین رقص بہت اچھے طریقے سے کیا کرتے ہیں۔ عموماً ایک کھلے میدان میں یہ عمل کیا جاتا ہے، لیکن اگر موسم خراب ہو (برف باری ہو یا بارش) تو اُس صورت میں ایک بڑے ہال میں رقص کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس ہال کو "جشٹکان” کہا جاتا ہے۔ خاص کر مذہبی تہواروں میں اگر موسم خراب ہوجائے، تو جشٹکان کا رُخ کیا جاتا ہے۔
جشٹکان ایک بڑا ہال ہوتا ہے، جس کی دیواروں پر گھوڑوں اور بکروں وغیرہ کے نقوش باقاعدہ کندہ کیے گئے ہوتے ہیں۔ اردگرد بکریوں اور دیگر جانوروں کی لکڑی سے بنی شبیہ ہوتی ہیں۔
قارئین، کیلاش لوگ گھوڑے اور بکرے کو مقدس مانتے ہیں۔ اس لیے شادی کے موقع پر دلہا دلہن کے والدین ایک بکرا جشٹکان میں ذبح کرتے ہیں اور اس کا گوشت رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہیں۔
جشٹکان میں کسی بھی تہوار کے موقع پر جمع ہو کر کیلاشی مخلوط رقص کرتے ہیں۔ رقص ان کے مذہب اور روایات کا حصہ ہے۔ ان کے ہاں پردے کا تصور بالکل نہیں ہے۔ انہیں کہتے سنا کہ پردہ صرف منھ ڈھانپنے کا نام نہیں۔ نیت صاف ہونی چاہیے۔
کیلاشی دیسی شراب بناتے اور پیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ دیگر "آزادیوں” کا بھرپور لطف اٹھاتے ہیں۔ عموماً ان کے گھروں کے دروازے نہیں ہوتے۔ وہ ایک دوسرے کے گھر آزادانہ طور پر آ جا سکتے ہیں۔ ان کی شادیوں کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ اپنے خاندان کے اندر شادی بالکل نہیں کرتے۔ اس عمل کی وہاں حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی ایسا کرلے، تو پھر ان کی "مالوش” میں عبادت پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ بعد میں ایسا کرنے والا جوڑا خود کو بھی غلط تصور کرتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ کہیں "ماہان” دیو کا قہر ان پر نازل نہ ہوجائے۔ البتہ خاندان میں سات پشت پیچھے جاکے شادی کی جاسکتی ہے۔
کیلاشیوں کی شادیوں کی بھی مختلف اقسام ہیں، یعنی عموماً تہواروں میں جوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو پسند کرکے شادی رچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچپن میں والدین بھی رشتے طے کرلیتے ہیں، مگر جوان ہونے پر رشتہ قائم رکھنا لڑکے اور لڑکی کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔
کیلاش میں نکاح کی رسم زندہ ہے، جسے "شیشاوستنگ” کہا جاتا ہے۔ البتہ طلاق کا کوئی رواج نہیں۔ اس لیے شادی شدہ عورت بغیر طلاق لیے پہلے شوہر کو چھوڑ کر کسی دوسرے مرد کو پسند کرکے اس سے شادی رچا سکتی ہے، مگر اس صورت میں نیا خاوند سابقہ خاوند کو دوگنا مہر ادا کرنے کا مجاز ہوگا، یعنی اگر پہلے خاوند نے شادی پر 1 لاکھ روپے خرچ کیے ہوں، تو نیا خاوند اس کو 2 لاکھ روپے ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ اس رسم کو "دوک” کہا جاتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کیلاش تہواروں میں جنسی آزادی ہوتی ہے۔ لہٰذا کوئی کسی بھی وقت اپنا جیون ساتھی چُن یا تبدیل کرسکتا ہے۔ کیلاشی شادیوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
٭ کھوجلی جا:۔ یہ شادی لڑکا اور لڑکی کے والدین باہمی رضامندی سے طے کرتے ہیں۔
٭ اڑاشنگ جا:۔ یہ شادی آپس میں محبت کی شادی ہوتی ہے۔ والدین کی مرضی اور مشورے کے بغیر۔ اس لیے پھر لڑکی کو والدین اپنے گھر میں نہیں چھوڑتے، یعنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ شادی کے تین مہینے بعد لڑکی کو ان کے والدین گھر بلاتے ہیں، جو دو بکرے اور سامان ساتھی لے آتی ہے۔ سامان اور ایک بکرا والدین کے گھر چھوڑا جاتا ہے، جب کہ دوسرے کو مالوش میں ذبح کیا جاتا ہے۔ پھر خاوند کے گھر واپس ہوتے وقت والدین مال مویشی اور کچھ سامان بطورِ جہیز دے کر رخصت کرتے ہیں۔
٭ اڑاشنگ:۔ اس قسم کی شادی میں شادی شدہ عورت پہلے شوہر کو چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لیتی ہے، جس کا تصفیہ پھر جرگے اور "دوک” رسم کے تحت کیا جاتا ہے۔ دوک رسم کی تشریح اوپر کی گئی ہے۔
قارئین، کیلاش میں کئی حسین خواتین موجود ہیں، جن کے شوہر تبدیل ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے دوک رسم کی مالیت لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔
کیلاش میں دو شادیوں کی کوئی رسم موجود نہیں۔ البتہ "دوک” رسم کے تحت لوگ کئی ایک شادیاں رچاتے ہیں، مگر پہلی والی شادی کو ختم کر دیتے ہیں۔ خوشی خوشی زندگی گزارتے ہیں۔ بچے پیدا ہوجائیں، تو بھی عورت دوک رسم کے تحت دوسری، تیسری یا چوتھی شادی رچا لیتی ہے۔ اسے اپنے بچوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ شائد اس لیے کیلاشی حسینہ "کافر حسینہ” کہلاتی ہے۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔