امسال 23 مارچ یومِ پاکستان کچھ گومگو کی کیفیت کا یوں شکار نظر آیا، کہ ریاست و حکومت کی طرف اس کو پاک بھارت مناقشے کی تناظر میں "گلیمرایز” کرنے کی کوشش کی گئی جب کہ اکثریتی اداروں کی ہفتہ کے دن کی عمومی چھٹی کی وجہ سے انہیں کچھ زیادہ خوشی اور ریلیف حاصل نہ ہوئی، سو وہ اس حوالے سے پُرجوشی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر نظر آیے۔
ایک ٹی وی چینل کے نامہ نگار نے اس روز خیبر پختونخوا اسمبلی کے نمائندگان سے 23 مارچ کے حوالے سے سوال کیا، تو عجیب و غریب جوابات سننے کو ملے۔ ایک صاحب نے اسے کسی عظیم دشمن سے جنگ میں فتح کا جشن مانا اور دوسرے صاحب نے اسے علامہ اقبال کے خطبہ سے موسوم کیا۔ ایک ممبر اسمبلی نے تو اس سوال کو اتنا زیادہ گہرا محسوس کیا کہ اسے چکر آنے لگ گئے، اور صاحب طبعیت کی خرابی کا بہانہ بنا کر رفو چکر ہوگئے۔
پارلیمنٹ کے ممبران کا اپنی تاریخ سے اتنا بے خبر ہونا حقیقتاً میرے لیے اچنبھے اور پریشانی کا باعث بنا۔ چوں کہ میں خود مطالعۂ پاکستان سے دلچسپی کی بنیاد پر اس مضمون کے حوالے سے طالب علموں کی غیر سنجیدگی اور عدم واقفیت دیکھ کر کڑھتا رہتا ہوں، سو یہ انداز دیکھ کر تو میری پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا۔ کیوں کہ شاعر نے کہا ہے کہ
جو قوم بھلا دیتی ہے تاریخ کو اپنی
اس قوم کا جغرافیہ باقی نہیں رہتا
پاکستان جیسے پیچیدہ پس منظر اور انتظامی ساخت میں اس ملک کے بنیادی مقاصد کے ہم آہنگ عدل اجتماعی کا نفاذ موجودہ راج نیتی اور پاور پالیٹکس میں تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس میں اتنے ناخواندہ اور غیر سنجیدہ لوگوں کا ہمارے فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے مناصب پر پہنچنا خود ہمارے لیے ہی باعثِ شرم اور افسوس ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ ہمیں اس زوال اور پستی کا ادراک بھی نہیں، بلکہ شیخ چلی کی طرح احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ گویا کہ سب کچھ ٹھیک ہوچکا ہے اور تبدیلی آچکی ہے۔ بس اس کے اثرات ہم تک پہنچنا باقی ہیں۔ اسی کم مائیگی کا اظہار علامہ اقبال نے کچھ یوں کیا تھا کہ
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
جدید جمہوری طرزِ حکومت میں خود کو استحصال سے بچانے، اپنے وسائل اور حقوق کا استحقاق منوانے، اپنے حقیقی نظریاتی اور جغرافیایی ترجیحات کے تعین اور اس کے حصول کو یقینی بنانے اور اقوامِ عالم میں مقاصدِ شریعت کے مثبت اجرا کے حوالے سے اس پیچیدہ تاریخ اور ساخت کو سمجھے بغیر کسی خیر کی توقع کرنا دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے، حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتا۔ جس حکمت و دانائی کا یہ کام متقاضی ہے، ہمارے پاس تو اس کا عُشرِ عشیر بھی نہیں۔ اور پھر ہم گلہ کرتے ہیں کہ افسر شاہی نے کام نہیں کرنے دیا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اختیارات پہ قابض ہے۔ اختیار کوئی اپنی مرضی سے کسی اور کو نہیں دیتا، یہ حکمت و تدبر کی بنیاد پر، پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ کر لیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام کے ایوانوں کا "ڈسکورس اینالسس” اگر کیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ کتنی محنت اور عرق ریزی ان ممالک کے نمائندگان نے استحصالی ساہوکاروں اور اپنے اسٹیبلشمنٹس سے کم از کم اپنے ملکی عدلِ اجتماعی کے حوالے تدریجی قانون سازی کے ذریعے ترقی کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ تقسیمِ ہندوستان کے حوالے سے جتنی کچھ جد و جہد برطانوی پارلیمنٹ نے خود کو طاقت ور اشرافیہ کے علی الرغم اس اَن چاہے بوجھ سے آزاد کرنے کے لیے کی ہے، وہ خود میں ایک بہت بڑی مثال ہے۔ سرد جنگ کے حوالے سے یورپین ممالک کے پارلیمنٹس کا اپنی جمہوریتوں کے مفادات کے حوالے سے جتنا کچھ مزاحمتی کردار ہے، وہ بھی فقید المثال ہی ہے۔ اور تو اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد، ملٹری ٹیکنالوجی کو عوام کے فائدے میں تبدیل کرنے اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے بنیادی اہداف تک کو تبدیل کرنے کے حوالے سے مختلف ممالک کے پارلیمنٹ اور ان کے نمائندگان کا جو حصہ ہے، وہ تاریخِ انسانی کا ایک ورثہ ہے۔ ہمارے جیسے معذور قسم کے نمائندگان سے اس بابت کیا توقع لگائی جائے؟ انہیں تو بس ایک دوسرے کو ایوان میں گالیاں نکالنا، گلہ پھاڑ کے ایک دوسرے پر جگت بازی کرنا اور "تیرا چور، میرا چور” کی گردان الاپنا ہی آتا ہے۔ لیکن بہرصورت ہم ہی نے ان کو اس منصب کےلیے اہل جانا ہے اور ان کی ہر غلطی اور نااہلی کے ذمہ دار ان کو ووٹ دینے والے ہی ٹھہرتے ہیں۔ پشتو کا مشہور مقولہ ہے کہ "چہ سنگہ ژرندہ وی ھغہ شان ئی دوڑہ وی۔”
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔