مبالغہ (Exaggeration) ایک شعری اصطلاح ہے۔ افلاطون نے شاعری کو جب نقل کی نقل کہا تھا، تو وہ اصل شاعری کے فنی مبالغے کی طرف اس کا اشارہ تھا۔ افلاطون کے اس نظریۂ نقل پر بڑی اصولی بحثیں ہوئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ "فن” سے اگر مبالغے کو نکال دیں، تو باقی جو چیز بچتی ہے ، وہ فن نہیں ہوتی۔
مبالغہ، حسنِ فن ہے اور اس کی بنیاد تخیل و تصور پر ہے۔ کلام میں وہ بات بیان کرنا جو عام حالات میں مشاہدے میں نہیں آتی، لیکن کسی قرینے سے ممکن نظر آتی ہے "مبالغہ” ہے۔ تشبیہ و استعارہ، کنایہ، مجازی اور صنائع بدائع مبالغے کے ہتھیار ہیں۔
کالرج نے اسے اختراعی قوت کہا ہے۔ تمثال آفرینی (Imagery) جو کہ تخیل اور متصورہ (Fantasy) کی کرشمہ سازی ہے۔ کیا ہے؟ مبالغے کی جمال آفرین صورت ہی تو ہے۔ زندگی اور اس کے متعلقات کی جمالیاتی تفہیم کے لیے اشیا کو بعض غیر اصلی حقیقتوں کے حوالے سے دیکھنا پڑتا ہے اور یہی عمل "مبالغہ” ہے۔
عام لغت میں مبالغہ منفی و طیرہ ہے لیکن فنی مبالغہ ’’حُسن‘‘ ہے ۔ اس حوالہ سے میر انیسؔ کا ذیل میں دیا گیا شعر ملاحظہ ہو
پانی تھا آگ، گرمیِ روزِحساب تھی
ماہی جو سیخِ موج تک آئی، کباب تھی
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف "ادبی اصطلاحات” مطبوعہ "نیشنل بُک فاؤنڈیشن”، صفحہ نمبر 154-55 سے انتخاب)