روزانہ اخبار کی سرخیوں پر جب ایک نظر ڈالتا ہوں، تو پورے اخبار میں کوئی ایک خبر بھی ایسی نہیں ہوتی جسے پڑھ کر دل کو خوشی، سکون اور اطمینان ہو۔ ہر خبر مایوس کن اور پریشان کن۔ قومی قیادت خاص کر عمران خان کیوں کہ آج کل صرف عمران خان ہی قومی قیادت ہے اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے تو (نعوذ باللہ) عمران خان کو اللہ کے بعد سب سے بڑی شخصیت قرار دیا ہے۔ کابینہ اجلاس کے دوران میں خان صاحب کی یہ وضاحت کتنی حقیقت افروز ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی ہم نے بغیر کسی بیرونی دباؤ کے اپنے ملکی حالات اور مفاد کے تحت کی ہے۔ کیا کوئی آدمی جو حالات و واقعات کا کچھ بھی علم رکھتا ہو، اس بات پر یقین کر سکتا ہے کہ واقعی خان صاحب سچ کہہ رہے ہیں اور یہی اصل حقیقت ہے؟ اگر ایسا ہے، تو آپ نے ملکی مفاد میں یہ فیصلہ اس سے پہلے کیوں نہیں کیا؟ دوسری بات یہ کہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرکے آپ نے بھار ت کے اس مؤقف کو درست تسلیم کیا ہے کہ ’’پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے اور دہشت گرد تنظیموں اور مراکز کے ذریعے بھارت میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔‘‘ اس طرح تو بھارت آپ سے یہ مطالبہ بھی کرسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جدو جہد کرنے والے کشمیریوں کو بھی لگا م دو۔ کیا پلوامہ واقعے کے بارے میں بھارت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس میں پاکستان ملوث ہے؟
دوسری بات جو دل کو نہیں لگی۔ وہ کابینہ کا شاہ محمود قریشی کو کامیاب خارجہ پالیسی کے تحت دوست ملکوں کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ روکنے اور کشیدگی ختم کرنے پر خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ جارحانہ حملہ انڈیا نے کیا۔ پاکستان نے دو دن کے بعد اپنی دفاعی صلاحیت کا مظاہرہ کرکے انڈیا کے دو جہاز گرائے۔ ایک کے پائلٹ کو گرفتار کیا اور اس طرح بھارت کو جتا دیا کہ پاکستان ایک مضبوط دفاعی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے۔ حسن صدیقی جیسے جذبۂ جہاد سے سرشار جوانوں پر مشتمل فوج رکھتا ہے۔ نام نہاد دوست ممالک نے آپ کے اوپر دباؤ ڈال کر آپ کی فتح کو شکست میں اُس وقت تبدیل کیا جب آپ نے ان کے دباؤ پر دوسرے دن پائلٹ کو باعزت طور پر رہا کر دیا۔ یہ وقت تو آپ کے کھڑے ہونے کا تھا اور یہ موقع تو آپ کے ڈٹ جانے کا تھا۔ آپ کو اس بات پر اصرار کرنا چاہیے تھا کہ پہلے انڈیا اپنی جارحیت تسلیم کرے، مجرمانہ حملے پر معافی مانگے اور ہمارے جو بے گناہ قیدی اس کے جیلوں میں نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں، پہلے ان کو رہا کر دے۔ انڈیا کو تو خود اپنے حملے کا نتیجہ اور انجام معلوم ہوا کہ کس شیر کو چھیڑ چکا ہوں۔ لیکن ایسے میں بھارت جیسے بڑے اور عالمی طاقتوں کے لیے ایک بڑی مارکیٹ کو سبکی اور شرمندگی سے بچانے کے لیے اس کے تمام دوست مدد کو آئے اور پاکستان پر دباؤ ڈال کر پائلٹ رہائی کے ذریعے اس کی اشک شوئی کی۔
محترم وزیر خارجہ صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے سے تو یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ہندوستان ہمیں خدانخواستہ روند نے والا اور ملیامیٹ کرنے والا تھا، لیکن آپ کی بروقت ڈپلومیسی اور تگ و دو نے ہمیں بھارت کے حملے سے بچا لیا۔
بھئی، کچھ تو سوچ لیا کرو۔ کیا آپ نے اس ملک کے باشندوں کو عقل و شعور سے بالکل عاری اور نا بالغ سمجھا ہے کہ آپ کے ان مصنوعی قسم کے دعوؤں کو قبول کریں گے؟ آپ کے وزیرِ خارجہ اور وزارتِ خارجہ کی پوری حقیقت تو اس وقت سامنے آکر واضح ہوگئی جب آپ کے براد ر اسلامی ملکوں نے اسلامی ملکوں کی تنظیم اوآئی سی میں آپ کے دشمن ملک بھارت کو مدعو کیا اور آپ کے احتجاج اور بائیکاٹ کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ افغانستان کے ساتھ آپ کے کشیدہ تعلقات، دوسرے ہمسایہ ملک ایران کا آپ کی سرحدوں پر فوجوں کو لا کھڑا کرنا، بنگلہ دیش جیسے مسلم ملک کا بھارت کو سپورٹ کرنا کیا کامیاب خارجہ پالیسی ہے؟ اور اس کامیاب پالیسی پر شاہ محمود قریشی واقعی خراجِ تحسین کے قابل ہیں؟
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اس سے پہلے بھی ہمارا یہی حال تھا۔ نواز، زرداری دور میں بھی ہم نے پاکستان کو قوموں کی برادری میں باعزت مقام پر نہیں دیکھا۔ ان کے دورِ حکومت میں بھی ہماری قومی خودمختاری پائے مال کی گئی۔ ہمارے ملک میں دراندازی کی گئی اور ہمیں کئی بار قوموں کی برادری میں شرمندہ ہونا پڑا، لیکن آپ سے تو یہ امید تھی کہ آپ پاک صاف شخصیت کے مالک اور کرپشن کی گندگی میں ملوث نہیں۔ آپ روانی سے انگریزی بولتے ہیں۔ اکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں۔ مغرب اور عالمی طاغوتی قوتوں کی چالاکیوں اور حربوں سے واقف ہیں اور ان کی زبان میں ان کے ساتھ سر اونچا کرکے اور لہجہ مضبوط کرکے بات کرسکتے ہیں، لیکن ہائے ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔‘‘ آپ تو ان سے بھی دو قدم آگے چلے گئے۔ آپ کے چھے ماہ کے دورانِ حکومت نے تو الزام لگانے والوں کی یہ بات سچ ثابت کر دی کہ آپ عالمی طاغوتی ایجنڈے کو پاکستان میں بروئے کار لانے کے لیے سازش کے ذریعے لانچ کیے گئے ہیں۔ آپ کی اقتصادی پالیسی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے۔آپ نے آئی ایم ایف سے کچھ لیے بغیر ان کا ایجنڈا نافذ کر دیا اور روپے کی قدر کم کرکے عوام پر گرانی اور مہنگائی کا بم گرا دیا۔ آپ کی انتظامی صلاحیتوں کا بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آپ کے وزیر توانائی غلام سرور خان نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ چوبیس لاکھ گھریلو صارفین کو گیس کے زائد بل بھجوادیے گئے ہیں۔ کس قدر شان دار کارکردگی ہے کہ معمولی ماہانہ آمدنی رکھنے والے گھریلو صارفین کو پینتالیس ہزار روپے تک گیس بل بھجوا دیے گئے ہیں۔ اس پر نہ کوئی ایکشن، نہ ندامت ، نہ شرمساری۔ اگر شاہ محمود کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکتا ہے، تو آخر غلام سرور اور اس کی وزارت کے کرتا دھرتا خراجِ عقیدت سے کیوں محروم ہیں؟
آج ہی کی ایک اور افسوس ناک خبر کہ سرکار سے تنخواہ اور مراعات لینے والے اور قومی قیادت کے دعوے کرنے والے قومی دولت اور سرمائے کے ضیاع اور نقصان کے بارے میں اتنے بے حس اور لاپروا ہوسکتے ہیں، جس طرح جرمنی کے ایک ائر پورٹ پر پی آئی اے کے ایک ائربس طیارے کے بارے میں انکشاف سے ہوا۔ معلوم نہیں یہ طیارہ کتنے عرصے سے اس ائر پورٹ پر کھڑا رہا کہ بالکل ناکارہ اور ناقابلِ استعمال ہو کر سکریپ میں فروخت کرنا پڑا۔ اس پر ائر بس طیارے کو دوحصوں میں تقسیم کرکے فروخت کیا گیا۔ ایک حصہ انجن اور متعلقہ سامان کو ایک کروڑ سینتیس لاکھ ڈالرز میں اور دوسرے حصے ڈھانچے کو ائر پورٹ پارکنگ چارجز کی مد میں لزپیک ائر پورٹ پر قائم موزیم کو فروخت کیا گیا۔ ائر پورٹ انتظامیہ نے ایک لاکھ تیس ہزار یورو کی رقم پارکنگ چارجز میں وضع کی۔ کیا کوئی ہے کہ اس واقعے کی تحقیق کرے کہ اس میں نفع کتنا ہوا اور نقصان کتنا؟ اور اس غفلت اور لاپرواہی سے ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟
قائدِ محترم! آپ کی اخلاقی ساکھ پہلے ہی غیر معمولی شادیوں اور شاہانہ اندازِ زندگی کی وجہ سے داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ پارٹی کا جو حال ہے، وہ اس سے عیاں ہے کہ معاشرے کی کسی بھی سطح پر پارٹی کا وجود نہیں۔ صرف وہ ایم ان ایز اور ایم پی ایز ہیں، جو صرف اخباری بیانات اور خوشامد و چاپلوسی پر مبنی تقریروں میں نظر آتے ہیں۔ بجٹ پر بجٹ پیش کیے جا رہے ہیں اور ٹیکس پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ گرانی اور مہنگائی کا ایک طوفان ہے، جس نے عوام کے اوسان خطا کر کے رکھ دیے ہیں۔ یہ ہے آپ کے گڈ گورننس اور انتظام و انصرام کی بہترین حکمت عملی۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!
اگر چھے سات ماہ میں آپ کی حکومت و قیادت کا یہ حال ہے، تو نجانے آگے چل کر اور کیا ہوگا؟
اب تک تو ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں آپ کی کوئی حقیقی حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ نہ زراعت و صنعت کے بارے میں کوئی پالیسی ہی تشکیل پا سکی۔ در آمد و برآمد میں توازن اور خسارے کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل سامنے نہ آسکا۔ پی آئی اے کی بحالی اور سٹیل مل کی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے اور خسارے کو ختم کرنے کے بارے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
میرے کپتان! آخر قوم کو آپ کی کارکردگی کا کیسے پتہ چلے گا؟ یہ مسائل کون حل کرے گا؟ اب تو خیر سے ہمارے پاس کوئی اور آپشن بھی باقی نہیں رہا۔ اللہ پاک ہمیں مایوسیوں کے اندھیروں سے اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین!

………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔