اس دنیا میں کوئی بھی انسان عالمِ شعور میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ بچپن اور لڑکپن کے نا پختہ ارتقائی مراحل سے گزر کر عقل و شعور کی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد موجود دنیا و قدرت کا حصہ ہوتا ہے۔ اپنے، اپنی قدرت اور اپنے خالق کے درمیانی تعلق کو سمجھنے اور دریافت کرنے کی جستجو کرتا ہے۔ اس تعلق کو معلوم کرنے کی جستجو کچھ سوالوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ میں کیوں پیدا ہوا؟ زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے؟ دنیا میں انسان کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کا خود انسانی عقل اصولاً جواب نہیں دے پاتی۔ ہمارے معاشرے میں ہمارے اساتذہ اور والدین بدستور اس موضوع پر لا علمی کا اظہار کرتے ہیں، یا پھر ان کو مذہبی عقائد کے ساتھ جوڑ کر صفائی سے عقل و فہم کو محدود قرار دے دیتے ہیں، جب کہ دوسری جانب معاشرے کے مذہبی انتہا پسند اور جذباتی عناصر اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔ حالاں کہ ایسا سمجھنا اصولاً صحیح نہیں کہ مذہبی تعلیمات کی بنا پر ان جیسے موضوعات کو زیرِ بحث ہی نہ لایا جائے۔
اس کے برعکس مذہب (اسلام) ایک الگ تصور پیش کرتا ہے۔ دین نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے، بلکہ اپنی تدبیر اور تفکر کی بنیاد پر اس کائنات کو مسخر کرنے پر زور بھی دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے: (ترجمہ) اور کسی جان کی قدرت نہیں کہ ایمان لے آئے، مگر اللہ کے حکم سے اور عذاب ان پر ڈالتا ہے جن کو عقل نہیں۔ (سورۃ یونس، 100)
دوسری جگہ ارشاد ہے: (ترجمہ) بے شک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو بہرے، گونگے ہیں جن کو عقل نہیں۔ (سورۃ انفال، 22)
لہٰذا دین کا مطالبہ یہ نہیں کہ ذہنی ارتقائی مراحل سے گزر کر انسان اپنی اعتقادی دنیا کو برباد کر دے، بلکہ یہ مطالبہ صرف اتنا ہے کہ اس کے عمل یا فعل میں جب کوئی سوال یا شک پیدا ہو، تو اس کو نظرانداز کرکے آگے نہ بڑھا جائے۔ انسان پر لازم ہے کہ حق و باطل کو جان کر سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرے۔
ہمیں اپنے ہر عقیدے اور ہر فکر کو عقل و فہم کے ترازو میں تولنا چاہیے۔ کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے جس سے تمام باتوں کی اصلیت معلوم ہوتی ہے اور انسان سچائیوں کی تہ تک پہنچتا ہے، لیکن عقل کو علم کہاں سے فراہم کیا جائے؟ اس بات کا جواب سرسید احمد خان یوں دیتے ہیں کہ ’’پرانی مذہبی کتابیں اور درسگاہیں اس قابل نہیں کہ وہ اصل حقیقت ہم پر واضح کر دیں۔ البتہ جدید سائنسی علوم، عقل کے مطابق ہیں۔ لہٰذا ہماری عقل کو مناسب غذا سائنسی نظریے اور تحقیق سے ہی مل سکتی ہے۔‘‘
قارئین، سائنسی علوم کی بنیاد مشاہدات و تجربات پر کھڑی ہے۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ سائنس کے انکشافات اور نظریات، دریافتوں اور ایجادات نے کائنات کی سچائی ہم پر عیاں کر دی ہے۔ جدید سائنس کا موضوع قدرت و مادہ ہے اور خدا ہی نے اسی مادے اور قدرت کو وجود بخشا ہے۔ چناں چہ خدا کا قول یعنی مذہب اور اس کی بنائی ہوئی قدرت کے اصولوں میں تضاد نہیں ہو سکتا، یعنی خدا کی بات اور اس کا کام ایک ہوگا۔ اس لیے ہمیں اپنے عقیدوں اور افکار کا محاسبہ مشاہدات و تجربات یعنی سائنسی علوم کی روشنی میں کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے ایسا کر لیا، تو پھر ہمارا یقین اور بھی پختہ اور مستحکم ہوجائے گا۔ پھر اگر ساری دنیا بھی ہمارے مخالف ہو، تب بھی اس یقین اور اعتقاد میں خلل نہیں پڑے گا۔ ورنہ بغیر اپنی ذاتی تحقیق اور جانچ پڑتال کے کوئی بھی حقیقت صرف سنی سنائی بات ہوگی اور اطمینانِ قلبی جس شے کا نام ہے، وہ کبھی حاصل نہیں ہو پائے گی۔
بقول علامہ محمد اقبال
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔