’’کل بل گونپاچی ریسٹورنٹ‘‘ سے واپسی پر جب تمام فیلوز آئی ہاؤس کی جانب چلنے لگے، تو میں نے سوچا کہ کیو ں نہ’’کیکو‘‘ کو مل لوں۔ ابھی رات کے نو بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ میں نے دوسرے فیلوز سے اجازت لی اور ’’کیکو ‘‘ کے سپرسٹور کی طرف جانے لگا۔ پیچھے سے ویتنامی فیلو’’دُک‘‘نے شرارتی انداز میں آواز دی: ’’فضل! ایک چاکلیٹ میرے لئے بھی لے آنا۔‘‘ ساتھ ہی باقی ماندہ فیلوز کے ’’فلک شگاف قہقہے‘‘ میری سماعت سے ٹکرائے۔
اس موقع پر بارش برس رہی تھی اور روپنگی میں برقی قمقموں کی روشنی رات کی تاریکی سے برسرِپیکار تھی۔ میں جب سپر سٹور کے قریب پہنچا، تو شیشے میں دلنشین ’’کیکو‘‘نظر آئی۔ میں نے اپنی چھتری بند کی اور سٹور کے دروازے میں پڑے پلاسٹک کے ڈبے میں اسے رکھتے ہوئے قدم رنجہ فرما گیا۔ الماریوں کے بیچ چلتے ہوئے میں نے ’’کیکو‘‘کی طرف نگاہ دوڑائی۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھی جب کہ اس کے گلابی چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔ چوں کہ مجھے کوئی خریداری نہیں کرنی تھی، تومیں غیر ارادی طور پر ایک الماری کے سامنے کھڑا ہوا اور یہ ظاہر کرنے لگ گیا کہ کو کوئی چیزڈھونڈ رہا ہوں۔ ساتھ ہی ہر دوسرے لمحے میں ’’کیکو‘‘ کی طرف بھی دیکھتا گیا کہ کب وہ کیش کاؤنٹر سے ہٹ کر الماریوں کی طرف آتی ہے۔ خوش قسمتی سے کچھ دیر بعد وہ ایک الماری کی طرف گئی۔ میں بھی لپک کر اس طرف گیا۔ جونہی اس نے مجھے وہاں دیکھا، تو جاپانی زبان میں سلام کیا۔ میں نے اس کے چہرے پر تھکن کے آثار دیکھتے ہوئے اس سے خیریت دریافت کی۔ جواباً اس کے گلابی گالوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ’’بہت تھکن محسوس کر رہی ہوں۔‘‘ اس نے دھیمی آواز سے کہا۔ میں نے اس کی صحت کے بارے میں دریافت کیا، تو کہا کہ کوئی بیماری نہیں، پر صبح نو بجے سے مسلسل کام کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس کررہی ہوں۔

روشنیوں کے شہر روپنگی کا ایک دلفریب منظر (فوٹو: لکھاری)

کیکو بھی دیگر جاپانیوں کی طرح دس سے بارہ گھنٹے مسلسل کام کرتی ہے۔ جاپان کے لوگ انتہائی محنتی اور ایماندار ہیں۔ کام کے دوران میں غیر متعلقہ کام کو گویا ’’گناہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس لئے آپ کہیں بھی جائیں، آپ کو جاپانی کام کے دوران میں پانچ منٹ کے لئے بھی آرام کرتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔ اہل جاپان کے بقول ’’دوپہر کے کھانے اور رفع حاجت کے وقت انہیں جو وقت ملتا ہے، بس اسی میں انہیں آرام بھی مل جاتا ہے۔‘‘ میں نے اس وقت سوچا کہ یہ جاپانی لوگ اسلامی اصولوں پر کتنا کاربند ہیں اور کام کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں، مگر ایک ہم مسلمان ہیں کہ اپنے کام کا وقت جہاں گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں، وہاں اک آدھ گھنٹے کے لئے اِدھر اُدھر کھسک کر بھی گزار جاتے ہیں۔ ہم ہمیشہ کام کے وقت کو کسی نہ کسی طریقے سے گزارنے کا ہی سوچتے ہیں۔ ہمارے سرکاری اداروں میں تو اس حوالہ سے کافی برا حال ہے، جہاں سرکاری اہلکار چاہے آفیسر ہوں یا عام کارندے، اپنی ڈیوٹی اس انداز سے کرتے ہیں گویا کسی پر احسان جتارہے ہوں۔
’’کیکو‘‘ کو میں نے مشورہ دیا کہ روزانہ دس سے بارہ گھنٹے کام اس کی صحت پر برا اثر ڈالے گا اور یہ کہ اس کو تھوڑا بہت آرام بھی کرنا چاہئے۔ میرا مشورہ سن کر وہ مسکرائی اور الماری میں سامان رکھتے ہوئے اس نے میرا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس کے بعد سیدھا واپس کیش کاؤنٹر پر چلی گئی۔ میری نظریں اس کے دراز قد کا تعاقب اس توقع کے ساتھ کر رہی تھیں کہ وہ مڑ کر دیکھے گی اور مسکرائے گی، مگر تھکن سے چو ر کیکو ایک بار پھر کام میں مصروف ہوگئی۔ میں نے جوس کا ایک ڈبا اٹھایا اور کیش کاؤنٹر پر رقم ادا کرتے ہوئے باہر نکل آیا۔ بارش اب کچھ زیادہ ہی تیز ہوگئی تھی۔ بوندوں نے سر پر چھتری تاننے کے باوجود میری ٹانگوں کو گیلا کرنا شروع کیا۔ آئی ہاؤس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے میں پہلی دفعہ اداسی محسوس کر رہا تھا۔ کیوں کہ آج پہلی دفعہ میں نے کیکو کو پریشان دیکھا تھا اور ساتھ ہی اس نے مجھے وہ اہمیت بھی نہیں دی تھی جس کی میں توقع کر رہا تھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ ’’کیکو‘‘ کے لئے میں بھی ایک عام جاپانی گاہک ہی تھا۔
آئی ہاؤس کے بیرونی گیٹ سے داخل ہوتے ہوئے میری نظر اونچی ’’موری ٹاور‘‘ کی عمارت پر پڑی جس میں میں لگے درجنوں برقی قمقمے آج مدھم اور پھیکے لگ رہے تھے۔ آئی ہاؤس کے اندر داخل ہوا، تو فرنٹ ڈیسک پر موجود عملے نے مجھے خوش آمدید کہا۔ میں لفٹ میں داخل ہوا اور دوسری منزل کے کمرہ نمبر 214 کے اندر گیا اور اپنے بیڈ پر لیٹ گیا، تاکہ جلدی سو کر صبح بروقت شمال مشرقی ایشیا کے حالات پر منعقدہ سمینار میں شرکت کر سکوں۔
٭ شمال مشرقی ایشیا کے حالات پر منعقدہ سمینار کی کتھا:۔ صبح ناشتہ کرنے کے بعد ہم تمام فیلوز تیار ہوئے اور ٹھیک نو بجے سمینار ہال میں پہنچے۔ براعظم ایشیا دنیا کا سب سے بڑا برا عظم ہے، جہاں دنیا کے تقریباً 50 ممالک ہیں۔ اسی طرح ایشیا کو کئی ریجن میں تقسیم کیا گیا ہے جیسا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ہے، تو انڈونیشا اور ملائیشیا جنوب مشرقی ایشیا اور جاپان شمال مشرقی ایشیائی ممالک میں آتا ہے۔ ایشیا کے تمام ممالک اور ریجن کے حالات پر سیر حاصل بحث کے لئے کئی سیمینار شیڈول میں شامل تھے۔ 19 ستمبر کو شمال مشرقی ایشیا جس میں جاپان، شمالی کوریا، جنوبی کوریا، چین کا شمال مشرقی حصہ او ر روس کا مشرقِ بعید والا حصہ شامل ہے، کے بارے میں مختلف حوالوں سے بحث کی گئی۔

شمال مشرقی ایشیا کا نقشہ

ٹوکیو یونیورسٹی کے پروفیسر ’’تاکا ہارا اکیو‘‘ جو چینی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، نے ریجن کی معاشی اور سیکورٹی کے حوالہ سے پریزنٹیشن دی اور جہاں چین اور جاپان کے تعلقات کو معاشی ترقی کے تناظر میں پیش کیا، وہاں دونوں ممالک کے درمیان پانی اور جزیروں کی ملکیت کے تصادم کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے شمالی کوریا کے میزائل پروگرام کو اس ریجن کی سیکورٹی کے لئے خطرہ ظاہر کیا۔ باتوں باتوں میں انہوں نے اشارہ دیا کہ چین، شمالی کوریا کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس حوالہ سے مثال دی کہ ’’شمالی کوریا چین کا بگڑا بچہ ہے۔‘‘ ساتھ ہی یہ تاثر دیا کہ اگر چین چاہے، تو شمالی کوریا پر دباؤ ڈال کر اس کے ایٹمی پروگرام کو روک سکتا ہے۔

بقول پروفیسر تاکا ہارا اکیو: ’’شمالی کوریا چین کا بگڑا بچہ ہے۔‘‘ فوٹو: The Globe Post

انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا دونوں چین کے محتاج ہیں۔ کیوں کہ دونوں ممالک کا ہر قسم درآمدات کے لئے چین پر انحصار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو چین کی سڑکیں اور سمندری بندرگاہوں کے منصوبوں میں محتاط رہنا ہوگا۔ کیوں کہ چین یہ منصوبے اپنی تجارت کو توسیع دینے کے لئے ترقی پذیر ممالک میں بنا تو رہا ہے، مگر جو سرمایہ کاری کر رہا ہے، وہ ان ترقی پذیر ممالک کو واپس کرنا ہوگی اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ انہوں نے ماضی میں سری لنکا اور تاجکستان میں چینی سرمایہ کاری سے بننے والے منصوبوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دونوں منصوبوں میں سری لنکا اور تاجکستان جب چینی قرضہ واپس نہ کرسکے، تو ان کو اپنے ملکوں کی زمین بدلے میں دینا پڑی۔

نارتھ ایسٹ ایشیا ٹریڈ ٹاور کا خوبصورت منظر (فوٹو: لکھاری)

یہ سنتے ہی میں بھی سوچ میں پڑ گیا کہ جو ’’سی پیک‘‘ منصوبہ چین نے پاکستان میں شروع کیا ہے، اگر خدانخواستہ یہ مستقبل میں ناکام ہوگیا، تو پاکستان اتنی بڑی رقم کیسے واپس کرے گا؟ خاکم بدہن، ہمیں بھی بدلے میں چین کو اپنے ملک کی زمین دینا نہ پڑ جائے، یا پھر کہیں مستقبل میں چین گوادر پر ہی قابض نہ ہوجائے۔ آج پورے پاکستان میں ’’سی پیک‘‘ کے حوالے سے بغلیں تو بجائی جا ر ہی ہیں، مگر اس کے پیچھے ہونے والے معاہدوں کے بارے میں تو عام پاکستانیوں کو علم ہی نہیں کہ چین یہاں اتنی بڑی سرمایہ کاری کن شرائط پر کررہا ہے؟ خاص کر یہ کہ پاکستان کو اس کے بدلے میں کیا دینا ہوگا اور کیا کسی نے اس حوالہ سے سوچا بھی ہے کہ مستقبل میں چینی سرمایہ کاری واپس کیسے کی جائے گی؟ (جاری ہے)

………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔