کھانے کی دکانوں اور سرایوں یا ہوٹلوں کی روایت تاریخ میں بہت پرانی ہے۔ اس کا سراغ "میسوپوٹاسیہ” میں بختِ نصر کے زمانے سے ملتا ہے کہ لوگ کھانے کی چیزیں جیسے بُھنا گوشت، مچھلی اور مٹھائیاں بازار سے خریدتے تھے۔ مسافروں کے لیے سرایوں کا رواج تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں یہ سرائے چوروں، مجرموں اور طوائفوں کے مرکز بن گئے تھے۔ اس لیے حمورابی نے یہ قانون بنایا تھا کہ اگر شراب خانہ یا سرائے میں قانون کے بھاگے ہوئے لوگ جمع ہوجائیں اور انہیں قانون کے حوالے نہ کیا جائے، تو اُس کے مالک کو سزائے موت ہوگی۔
ہوٹلوں یا سرایوں کا رواج یورپ میں یا تو عرب اسپین سے آیا، یا صلیبی جنگوں کے بعد۔ کیوں کہ یہ روایت رومیوں کے زوال کے بعد متروک ہوگئی تھی، مگر بعد میں یہ سلسلہ شروع ہوگیا اور 1183ء میں لنڈن میں ایک ایسی دکان تھی کہ جہاں سے ہر وقت پکا ہوا کھانا دستیاب ہوتا تھا۔
چین میں تیرھویں صدی میں ہوٹل و سرائے عام ہوچکے تھے۔ اور ایسے ہوٹل بھی تھے کہ جہاں سے پکا پکایا کھانا فوراً مل جاتا تھا۔ اس کے علاوہ چائے خانے اور نوڈل کی دوکانیں تھیں، خاص ہوٹلوں میں بُھنا گوشت، سؤر کا اُبلا گوشت اور مچھلی کا سوپ ملتا تھا۔
چین میں یہ رواج بھی تھا کہ مہمانوں کو ہوٹلوں میں دعوت دی جاتی تھی۔ جب دعوت دینا ہوتی تھی، تو میزبان ہوٹل کو آرڈر دے دیتا تھا کہ اسے اتنے لوگوں کے لیے کھانا درکار ہے۔ اس کے بعد کھانے کے انتظامات ہوٹل والا کر دیتا تھا۔
یورپ میں اٹھارویں صدی میں کلب و ریسٹورنٹ عام ہوگئے تھے۔ 1770ء میں فرانس میں تو عورتیں بھی ریسٹورنٹ میں جاسکتی تھیں، مگر انگلستان میں 1830ء تک یہ عورتوں کے لیے غیر مناسب تھا کہ وہاں جائیں۔
مشرقِ وسطیٰ، وسطِ ایشیا اور برصغیر میں سرایوں کا رواج پرانا ہے۔ یہاں پر تاجروں کے قافلے اور مسافر آکر قیام بھی کرتے تھے اور ان کے کھانے کا بندوبست بھی سرایوں میں ہوجاتا تھا۔ ہندوستان کے حکمرانوں میں شیر شاہ سوری اس لحاظ سے قابلِ ذکر ہے کہ اس نے تاجروں اور مسافروں کو سہولتوں کے لیے شاہراہوں پر سرائیں تعمیر کرائی تھیں کہ جہاں مسلمان اور ہندو باورچی ملازم تھے کہ جو مسافروں کے لیے کھانا پکاتے تھے۔
لکھنؤ، دہلی اور لاہور میں کھانے کی دکانیں بڑی مشہور تھیں۔ کباب، پراٹھے، پائے، حلیم، پلاؤ اور مٹھائی میں خاص دکانوں کی شہرت ہوگئی تھی۔ مثلاً دہلی کے بارے میں فتح پوری مسجد کے نیچے "شاہجہاں پوری ہوٹل” اور "مستیا کبابی” مشہور تھے۔ دہلی میں نہاری، ناشتہ کے وقت بڑے شوق سے کھائی جاتی تھی۔ ایسی مشہور دکانوں کا ذکر شرر نے گذشتہ لکھنؤ میں کیا ہے۔ ایک زمانہ تک یہ دکان دار اپنے کھانے کی شہرت کا خیال رکھتے تھے۔ اس لیے صرف اتنا تیار کرتے تھے کہ جتنا ان کے بس میں تھا۔ اس وقت تک ملاوٹ اور معیار کی گراوٹ نہیں ہوئی تھی۔ اس کے برعکس اب شہرت کے فوراً بعد معیار بھی گرجاتا ہے اور ملاوٹ بھی آجاتی ہے۔ وہ پیشہ ورانہ فخر اب باقی نہیں رہا۔ بدلتے زمانے کی بدلتی ریتیں ہیں، جنہوں نے کھانوں کو بھی متاثر کر دیا ہے۔ (ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ’’تاریخِ کھانا اور کھانے کے آداب‘‘ مطبوعہ ’’تاریخ پبلی کیشنز لاہور‘‘ پہلی جلد 2013ء، صفحہ نمبر 43-44 سے انتخاب)
