جب نوجوانی میں اس نے عشق کے میدان میں قدم رکھا، تو ایک دن اس نے اپنی محبوبہ سے شادی کا ارادہ ظاہر کرنے کی غرض سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر جوں ہی بات شروع کی، تو اچانک اس کا دماغ ریاضی کی گتھیاں سلجھانے میں اتنا الجھ گیا کہ اسی الجھن میں اس نے محبوبہ کی انگلیاں مروڑ ڈالیں۔ محبوبہ کی چیخ سے چونک کر شرمندگی کے احساس میں اس نے کہا: "شاید مجھے عمر بھر شادی کے بغیر ہی رہنا چاہیے۔”
عزیزانِ من! ہمہ وقت اپنے تخیل کی اڑان سے معلوم علم کی حدود کو پھاندتا قدرت کی گہرائیوں تک پہنچ کر اس کے راز ڈھونڈے میں مستغرق رہنے والا یہ شخص عظیم سائنس دان ’’نیوٹن‘‘ تھا۔
1642ء میں روم کی جیل میں مشہور ماہرِ فلکیات ’’گلیلیو‘‘ جب اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا، تو انگلینڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں باپ کی وفات کے بعد ایک بیوہ ماں کے بطن سے عصر حاضر کا بابائے سائنس ایک لاغر و نحیف بچے کی شکل میں اس دنیا میں وارد ہوا۔ ماں اسے فن کار بنانا چاہتی تھی، لیکن کھیت کے کام سے فرار ہو کر چوری چھپے کتابیں پڑھتے دیکھ کر ماں اسے مزید تعلیم کے لیے کیمبرج بھیجنے پر رضامند ہو گئی۔ جہاں سے بی اے کی ڈگری حاصل کرتے ہی کیمبرج نے ’’نیوٹن‘‘ کو معلم کی نوکری دے دی۔ 20 سال اپنے تجربوں اور تحقیق کو چھپا کر رکھنے کے بعد جب اس کے دوست نے اسے چھاپنے کے لیے قائل کیا، تب اس نے اپنی تحقیقات پر مبنی کتاب کی تین جلدیں شائع کیں، جس کا عنوان تھا ’’سائنس کے ریاضی اصول‘‘ جس کے بعد سے آج تک نیوٹن کے دریافت کیے ہوئے تین اصول ہر پڑھے لکھے شخص کے نوکِ زباں ہیں۔ پہلا اصول یہ ہے کہ کوئی ساکن چیز تب تک متحرک نہیں ہوگی اور کوئی متحرک چیز تب تک ساکن نہیں ہوگی جب تک اس پر طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ دوسرے اصول کے مطابق، حرکت کی رفتار طاقت کی تناسب سے بدلتی ہے ۔ تیسرے اصول میں اس نے بتایا کہ ہر عمل کا مساوی الٹا رد عمل ہوتا ہے۔ یوں نیوٹن نے دنیا کو بتایا کہ مادہ کا ہر زرہ دوسرے زرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس باہمی کشش سے یہ نظامِ شمسی اور ستاروں اور سیاروں کے نظام قائم ہیں اور اپنے مخصوص طریقہ سے متحرک ہیں۔ کششِ ثقل کی اس دریافت کا راز نیوٹن نے ایک سیب کو گرتے دیکھ کر بتایا تھا۔
نیوٹن کے ان اصولوں نے نہ صرف سائنس کے علم کو وسعت دی، بلکہ عملی ایجادات کو بھی فروغ دیا۔
عزیزانِ من، نیوٹن کی یہ سرگذشت بیان کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ آج جتنے بھی سائنس دان ہیں سب کے سب نیوٹن ہی کے بتائے ہوئے اصولوں پر چل کر نئی ایجادات کر رہے ہیں۔ کیوں کہ نیوٹن نے ریاضی کے علم میں کچھ نئے اضافے کیے جن سے آج دیگر علوم حاصل کرنے والے مستفید ہو رہے ہیں۔ ان نئی حدوں کو چھونے کے بعد ریاضی کا اطلاق زیادہ وسیع قسم کے مسائل پر ہونا ممکن ہوگیا ہے۔ دنیا کی مہذب اقوام ایسا ہی کرتی ہیں اور اپنے بڑوں کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرکے ہی آگے بڑھتی ہیں۔
اگر آج مسلمان اپنے اسلاف کے سیرت و کردار کا بنظرِ غائر مطالعہ کریں، تو بہت سے ایسے مسائل ہیں جو ان سے حل نہیں ہو پا رہے، مجھے یقین ہے کہ وہ حل ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر آج پاکستان کے اہم مسائل میں سے ایک ڈیم کا بنانا ہے، جس کے لیے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار صاحب بہت فکرمند تھے اور انہوں نے کافی دوڑ دھوپ کرنے کے بعد مشکل سے چند کروڑ ڈالر جمع کیے جو ناکافی ہیں۔ محترم ثاقب نثار صاحب اپنے انگریز اکابرین کے علوم پڑھنے کے ساتھ ساتھ اگر اپنے مذہبی اسلاف کے کردار کا بھی کچھ مطالعہ کرتے، تو آج انہیں عوام کو یہ جواب نہ دینا پڑتا کہ ہم نے تو ڈیم بنانے کے لیے نہیں بلکہ صرف آگاہی کے لیے چندہ مانگا تھا۔
عزیزانِ من، امام ابوحنیفہ کے پاس لوگ امانتیں رکھتے تھے۔ ایک دن امام صاحب نے امانتیں رکھنے والوں کو بلایا اور کہا کہ تم لوگ یہ امانتیں مجھے قرض کے طور پر دے دو۔ اس سے آپ کو دو فائدے حاصل ہوں گے۔ ایک یہ کہ قدرتی آفات سے ضائع ہونے والی امانت قابلِ واپسی نہیں، لیکن قرض ہر حال میں واپس کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کی رقوم محفوظ رہیں گی اور دوسرا فائدہ آپ کو اجر و ثواب کا ہوگا۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرضِ حسنہ کا ثواب 18 گنا زیادہ ہے۔ چناں چہ وہ لوگ قائل ہوئے اور اس رقم سے امام صاحب نے اپنے کپڑے کے کاروبار کو وسعت دی۔ انہوں نے وہاں کپڑے کا بڑا کارخانہ لگایا۔ ایک بڑی دکان قائم کی۔ اسی سرمایے سے بغداد نیشا پور وغیرہ میں مال بھیجتے اور منگواتے تھے۔ اس کاروبار کے منافع سے امام صاحب کئی کام کرتے تھے، جسے آج کے دور میں آپ ’’پبلک فنانسنگ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً ضرورت مندوں کو قرض دیتے، سرکاری ضروریات صحت اور تعلیم وغیرہ کے لیے فنڈ قائم کرتے اور اگر کوئی شخص ان کی امانت کی بجائے کاروبار میں شراکت دار بننا چاہتا، تو وہ حصہ دار بنا کر منافع دیتے رہتے۔ یہاں تک کہ آپ نے اس منافع سے زید بن علی کو جہاد کے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا۔ یہ پورا نظام آج کی بینکاری کا بہترین متبادل ہے جو امام صاحب نے اس زمانے میں قائم کیا تھا۔
آج ڈیم کی تعمیر جو ایک اہم ضرورت ہے اگر اس کے لیے امام صاحب کے متعارف کیے ہوئے ماڈل پر عمل کیا جائے، تو نہ چندے اور بھیک کی ضرورت ہوگی اور نہ بیرونی امداد کی۔ حکومت کو چاہیے کہ ان پیسوں کے تحفظ کی یقین دہانی کرائے اور اس کی ذمہ داری قبول کرے۔ پھر بڑے مگرمچھوں یعنی بڑے سرمایہ داروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دیں، یا ان سے قرض لیں۔ پبلک کو ریاستی ادارے میں شیئرز دینے میں کوئی ریاستی نقصان نہیں ہے۔ ایک مسئلہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ کیا آمدن اور منافع اتنا ہوگا کہ لوگ مطمئن ہو سکیں گے؟ تو اس مقصد کو حاصل کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ ڈیم کے گرد و نواح میں پانی کا لیول بلند ہونے سے زمین بھی کچھ نہ کچھ حد تک متاثر ضرور ہوتی ہے۔ اگر ’’منرل واٹر‘‘ کی کمپنیاں ان علاقوں میں شفٹ کر دی جائیں، یا نئی لگا دی جائیں، تو اس سے بھی آمدن ہوگی اور ڈیم سے جو پانی نہروں میں بھیج کر فصلوں اور کھیتوں کی آبپاشی میں استعمال ہوگا، اس پانی کی آمدن کا ایک حصہ بھی شیئر ہولڈرز کو منافع کے طور پر دیا جاسکتا ہے۔ حکومت یہ بھی شرط لگا سکتی ہے کہ جو شخص بعد میں شیئرز بیچنا چاہے، وہ کسی بھی دوسرے شخص کو بیچنے کی بجائے پہلے حکومت کو ہی بیچے گا۔ اس طرح جیسے جیسے حکومت شیئرز خریدنے کے قابل ہوتی جائے گی، ڈیم دوبارہ حکومت کے پاس چلا جائے گا۔
عزیزانِ من، جس طرح آج سائنس دان نیوٹن کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرنے کی بدولت سائنس میں ترقی کر رہے ہیں، اگر آج ہم امام ابوحنیفہ کے اس ماڈل کو مزید بہتر کرکے اور اس کو آج کے دور سے ہم آہنگ کرکے ڈیم کی تعمیر پر آزمائیں، تو یقینا ہم ڈیم بھی بنالیں گے اور ہر کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے سے بھی بچ جائیں گے۔ جب یہ ماڈل کامیاب ہو جائے گا، تو کچھ بعید نہیں کہ ہم اس سودی نظام کو ترک کر کے اسی کو متبادل نظام بنائیں۔ آخر میں میری گذارش ہے کہ جو حضرات اس میدان کے شہسوار ہیں، وہ آگے بڑھ کر اپنی پوری قوت صرف کریں حکومت اور عوام کی توجہ اسی طرف مبذول کرائیں۔ ڈیم کی تعمیر کو ممکن بنائیں تاکہ مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔