نظمانہ (جدید صنفِ نظم)

نظمانہ
’’نظمانہ‘‘ جدید صنفِ نظم ہے۔ نظمانہ کے لغوی معنی تو ’’نظم کرنا‘‘ یا ضبطِ نظم میں لانا‘‘ کے ہیں، مگر اصطلاح میں یہ وہ صنفِ نظم ہے جس میں کسی کہانی یا مختصر افسانے کو نظم کیا جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب اُردو میں ناول لکھنے کا بڑا زور تھا۔ پھر وقت کے تقاضوں کے پیشِ نظر اس کی جگہ افسانہ نے لے لی اور اب افسانہ بھی سمٹ کر مختصر سے مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح اصنافِ نظم میں قصیدے، مرثیے اور مثنوی کی مقبولیت کا گراف رو بہ زوال ہے اور ان اصناف کی جگہ اُن اصناف کو پسند کیا جانے لگا ہے جن میں اختصار اور جامعیت کی شان ہے، جن میں ایک صنفِ نظم ’’نظمانہ‘‘ ہے۔
اردو میں ’’نظمانہ‘‘ کی ایجاد کا سہرا محسنؔ بھوپالی کے سر بندھتا ہے جو بیک وقت ایک منجھے ہوئے شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ انہوں نے پہلے پہل چار مصرعوں کے قطعات کی صورت میں اور پھر قطعے کا کینوس محدود دیکھ کر آزاد نظم کی ہیئت میں اخبارات اور رسائل و جرائد میں اَن گنت ’’نظمانے‘‘ لکھے، جنہیں باذوق قارئین نے تحسین کی نگاہ سے دیکھا۔
’’نظمانہ‘‘ کیا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ’’نظمانہ‘‘ افسانے کی منظوم شکل ہے۔ دراصل نثر میں نظم کا سا اختصار پیدا کرنا اردو کے بعض شاعروں کا آدرش رہا ہے۔ ’’نظمانہ‘‘ اس آدرش کو عملی شکل دینے کی کوشش ہے۔ نظم میں کسی کہانی، افسانے، واقعے یا مکالمے کو اس طرح برقرار رکھنا کہ نثر کے تقاضے بھی پورے ہوجائیں اور نظم کی خوبیاں بھی برقرار رہیں، بڑے معرکے کا کام ہے اور بعض شاعروں نے اسے انجام دینے کی کوشش کی ہے، جن میں اہم ترین نام محسن بھوپالی کا ہے۔ محسن بھوپالی کی اس کاوش کو اردو کے بعض ناقدینِ ادب نے بڑا سراہا ہے، جن میں ڈاکٹر سلیم اختر، سبطِ حسن، رئیس امروہوی، انجم اعظمی، مختار زمن، راغب مراد آبادی، فارغ بخاری، صہبا لکھنوی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، پروفیسر مجتبیٰ حسین، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، شان الحق حقی، قتیل شفائی، ابنِ انشا، حمایت علی شاعر، تاج بلوچ، احمد ندیم قاسمی، سحر انصاری اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری شامل ہیں۔
نظمانے کی صنف کو ہم بلاشبہ ترقی پسند تحریک سے جوڑ سکتے ہیں بلکہ تأمل کہہ سکتے ہیں کہ ’’نظمانہ‘‘ ترقی پسند ادب میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص پاکستان کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے، تو وہ محسن بھوپالی کے مناظموں کا مطالعہ کرلے، اس پر پاکستان کی تصویر روشن ہوجائے گی۔ محسن نے اپنے مناظموں میں بڑے جرأت مندانہ انداز سے معاشرے کے تاریک گوشوں اور معاشرے میں پانی جانے والی منافقتوں کو اس بے باکی سے قلم بند کیا ہے کہ ان میں ماحول کی عکاسی کے ساتھ ساتھ طنزیہ انداز میں بے لاگ تبصرہ بھی شامل ہوگیا ہے۔
ہر چند مناظمے کی صنف میں دیگر شاعروں مثلاً منیرالدین احمد، نجمہ تسنیم، غزل جعفری اور عظیم راہی نے بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن، جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے، اس میں بڑا نام محسن بھوپالی کا ہے، جن کی ’’مناظمے‘‘ کے عنوان سے 1975ء میں پہلی بار کتاب منظرِ عام پر آئی اور جس کے تادمِ تحریر چار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب میں سے ہم صرف ایکمناظمہ پیش کرتے ہیں جن میں شاعر نے بڑی فن کاری سے معاشرے کے ریاکارانہ اور منافقانہ رویوں کو گہرے طنزیہ لہجے میں مناظمے کی صورت میں نظم کیا ہے۔ مناظمے کا عنوان ہے: ’’بھائی چارا‘‘
تمام انسان ہیں ………… ٹھہریے گا!
یہ کیسی دستک ہے! ………… دیکھ آؤں
’’مَیں کل سے بھوکا ہوں‘‘
راہِ لِلّٰہ …………ایک روٹی
عجیب ہو تم…………یہ کیا طریقہ ہے؟
کچھ نہیں ہے ………… چلو یہاں سے
بھلا سا موضوعِ گفتگو تھا
………… لو یاد آیا ………… مَیں کہہ رہا تھا
تمام انسان ہیں، ایک اکائی
تمام انسان ہیں، بھائی بھائی
(’’اصنافِ نظم و نثر‘‘ از ڈاکٹر محمد خاں و ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ناشر الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، صفحہ 156-57 سے انتخاب)