دنیا پر حکمرانی کرنے کی خواہش نے روس اور امریکہ کو آپس میں دشمن بنا دیا ہے، جس کے سبب دونوں کے مابین ایک بار پھر سرد جنگ جاری ہے۔ جب روسی افواج اول اول 1979ء کو افغانستان میں داخل ہوئیں، تو افغانیوں نے ان کے خلاف بندق اُٹھا کر مزاحمت شروع کی۔ اس مزاحمت نے امریکہ کو موقع فراہم کیا کہ دوسروں کے کاندھے پر بندق رکھ کر روس کو شکست دی جائے۔ امریکہ نے افغانوں اور پاکستان کے کندھے کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی اور مغربی دنیا کو ساتھ ملا لیا۔ چوں کہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ روس کے خلاف کوئی ایشو تھا، اور نہ اس جنگ میں جھونکنے کے لیے افرادی قوت کی نرسری۔ اس لیے امریکہ نے اُس وقت کے پاکستانی حکمران صدر جنرل ضیاء الحق، دوسرے فوجی جنرلز اور مذہبی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا اور انہیں اس خدمت کو سر انجام دینے کے عوض اسلحہ اور ڈالر فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے ڈالر اور دیگر مراعات کی خاطر جہاد کے نام (جسے پہلے وہ فساد سمجھ رہے تھے) پر دوسروں کے بچوں کو پرائی جنگ میں جھونکنا شروع کیا۔ امریکہ نے دیگر ریاستوں کے مطلوبہ افراد کو جہاد کے لیے پاکستان میں جمع کیا۔ جنگ میں روس کی شکست تک امریکہ جہاد کو مسلمانوں کا مقدس مذہبی فریضہ قرار دیتا رہا۔ جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی ویڈیوز دکھا دکھا کر اقرار کرتا رہا کہ کہیں مہینوں، سال گزرنے کے باوجود ان کی لاشوں سے مشک و عنبر کی خوشبو آ رہی ہے۔ جب روس کو شکست ہوئی، تو دیگر ممالک سے لائے گئے جنگجوؤں، مقامی جہادیوں اور وار لاڈز کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا، جب کہ پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کے مفادات کی خاطر ایک گروہ کی مدد کی۔ مجاہدین دس سال تک آپس میں مشت و گریبان رہے۔ اس دوران میں "طالبان” کے نام سے ایک نیا گروہ وجود میں آیا۔ طالبان نے بہت جلد پورے افغانستان پر قبضہ کرکے امن و امان بحال کر دیا۔ اسلامی ریاست پاکستان کے سنگ میں ایک اور پُرامن اسلامی ریاست امریکہ کو کسی صورت قبول نہ تھی۔ کیوں کہ اس سے امریکہ کے مفادات پر ضرب پڑنے والی تھی۔ امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کے لیے اپنے ہی ملک میں "نائن الیون” کا ڈراما رچایا۔ امریکہ کے نزدیک نائن الیون کے بعد مجاہدین ان کے نزدیک دہشت گرد ٹھہرے۔ اس نے نائن الیون کو بہانہ بنا کر 2001ء میں افغانستان پر پلہ بول دیا۔ نیٹو افواج کے ساتھ امریکہ اپنی طاقت کے زغم میں ہوائی جنگی جہازوں سے بلاامتیاز افغان مرد و زن اور بوڑھے بچوں کے قتل کرتا رہا۔ امریکی انتظامیہ سمجھ رہی تھی کہ افغانوں کو جدید جنگی ٹیکنالوجی اور بندوقوں کے زور پر زیر کرکے اپنی شیطانی سوچ کے مطابق نتائج حاصل کر لیے جائیں گے۔ امریکہ نے سیکڑوں فوجیوں کی جانی اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان اُٹھانے کے بعد اس حقیقت کا ادراک کیا کہ افغان سرزمین پر اپنی مفادات کی جاری جنگ نصف صدی تک نہیں جیتی جاسکتی اور دیگر نیٹو ممالک بھی اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں۔
دوسری طرف کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق امریکہ کے صدر "ڈونلڈ ٹرمپ” پاکستان پر الزام لگاتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان امریکہ سے ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ اب امریکی صدر نے زلمی خلیل زاد کو اپنا مشیر بنا کر یہ ذمہ داری سونپ دی ہے کہ وہ طالبان (یعنی دہشت گردوں) کے ساتھ ہونے والے پُرامن مذاکرات کی نگرانی کرے، اور وہ بھی امریکہ سے ڈبل گیم کھیلنے والے پاکستان کی معاونت کے ساتھ۔ تو کیا امریکہ کے اس طرزِ عمل کو افغانستان میں امریکی حکمتی عملی کی ناکامی اور پاکستان کی کامیابی سمجھا جائے؟
ایک خوش کن امر یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان دونوں اپنے اصل جذبات پر قابو رکھنے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ امریکہ نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی پاکستان کی تعریف کی اور اس کے عوض امریکہ نے اپنے اتحادیوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے بارہ ملین ڈالرز فراہم کیے، جب کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کو نرم شرائط پر قرض دینے کی ہدایت بھی کی۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق کئی ماہ سے جاری طالبان، امریکی مذاکرات میں اب تک صرف دو نِکات پر اتفاق رائے پیدا ہوا ہے۔ ایک یہ کہ امریکہ 18 مہینے کی مدت میں افغانستان سے اپنی فوجیں مکمل طور پر نکالے گا اور دوسرا یہ کہ طالبان مستقبل میں القاعدہ، داعش یا اس قسم کی کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو اپنے ملک میں پناہ نہیں دیں گے، جو کہیں بھی اور کسی بھی صورت میں امریکہ اور مغربی ممالک کے مفادات کے نقصان کا با عث بن سکتے ہیں۔ البتہ جنگ بندی پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
قارئین، کئی ماہ سے جاری اس مذاکرتی منظر سے افغان حکومت جو ازبک، تاجک، ہزارہ اور طالبان مخالف پختونوں کی نمائندگی کرتی ہے، غائب ہے۔ اگر امریکہ 18 سالوں میں اپنی کٹھ پتلی افغان انتظامیہ کے ساتھ مل کر جنگ میں کامیابی حاصل نہ کر سکا، تو اگلے 18 ماہ میں چاہے امریکہ جنگ کرے یا مذاکرات، دونوں صورت میں طالبان تیار ہیں۔ افغان مسئلے کا حل، طالبان مذاکرات اور امریکی سنجیدگی میں پوشیدہ ہے۔ امریکہ بندوق کے زور پر افغان مسئلے کا حل نہیں نکال سکتا۔ واشنگٹن اور پینٹاگون کے سخت گیر مؤقف میں لچک مذاکرات کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ امریکہ کا افغانستان سے فوج نکالنا اور طالبان کا قومی دھارے میں شامل ہونا مذاکرات کی کامیابی اور خطے کے لیے نیک شگون ہوگا۔
قارئین، امریکی صدر ٹرمپ نے گذشتہ روز ایک اور بیان دیا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کسی معاہدے تک پہنچیں گے، یا نہیں۔ تاہم دو دہائیوں سے جاری جنگ کے بعد وقت آچکا ہے کہ ہم کم ازکم اپنی سی کوشش کریں۔
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگلے انتخابات سے قبل ایک ناقابلِ تنسیخ پالیسی کا اعلان کیا ہے اور یہ طالبان کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے کا نتیجہ نہیں، تو پھر افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کا راستہ بدستور دھندلا اور غیر واضح سمجھا جائے گا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم اور جنرل پرویز مشرف حکومت کی افغان پالیسیاں تو پاکستان کو کچھ نہ دے سکیں، کیا موجودہ حکومت کی طالبان پالیسی پاکستان کے لیے فائدہ مند رہے گی یا پھر یہ مزید نقصان کا باعث بنے گی؟
فائدہ مند ہونے کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ یہ پالیسی تجارت اور توانائی کے راستے کھولتی ہے یا نہیں؟ خدانخواستہ یہ ایک بار پھر انتہا پسندی پر منتج ہو کر پھر سے خطے میں تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ نہ بن جائے!

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔