پاکستان میں انتخابات کی سیکورٹی کی مد میں قریباً 10 ارب خرچ ہوئے۔ علاوہ ازین اربوں روپے کے اخراجات اور ہیں۔ اتنا بے تحاشا روپیہ خرچ ہونے کے بعد جس قسم کی پارلیمنٹ وجود میں آئی، اس کی کارروائی دیکھ کر بحیثیتِ عام شہری افسوس ہوتا ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے ایوانوں میں جانے والے ان کے لیے کیا پالیسیاں بنارہے ہیں؟ ایوانوں میں تو ایک جانب مقدمات کی عدالتیں لگی ہیں، تو دوسری طرف حکومت کی جانب سے جواب دینے کے لیے جس قسم کی اسٹرٹیجی بنائی گئی ہے، یہ قطعی طور پر دونوں جانب سے مناسب نہیں۔ مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری اوردیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان تو اب کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت پانچ برس کسی صورت پورے نہیں کرسکتی۔ مڈٹرم الیکشن کا پنڈورا باکس خود وزیراعظم نے کھولا تھا۔ اب اس میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے، لیکن اپوزیشن اس کے لیے عجلت کا مظاہرہ نہیں کر رہی، یا پھر وزارت عظمیٰ کے انتخاب کے موقع پر پی پی پی کے رویے نے عدم اعتماد کی جو فضا بنائی تھی اور اپوزیشن رہنماؤں سے ملنے سے بھی انکار کردیا تھا، اس کے مضمرات کا اندازہ پی پی پی کو بخوبی ہوگیا ہوگا۔
اب فارمولا تبدیل ہوچکا ہے، اور ذرائع کے مطابق ’’اِن ہاؤس‘‘ تبدیلی کے لیے حکمت عملی بنائی جارہی ہے، جس کے لیے ابتدائی فریم ورک پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ جمہوریت کے تسلسل میں وزرائے اعظم تو گھر جاتے رہے ہیں، لیکن حکومت اپنی مدت پوری کرتی رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’اِن ہاؤس‘‘ تبدیلی کے لیے ’’مائنس عمران خان‘‘ فارمولے پر کام کیا جائے گا، لیکن یہاں یہ بات بھی زیرِ گردش ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ’’اِن ہاؤس‘‘ تبدیلی کے لیے وزارت عظمیٰ کی فی الحال خواہش مند نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں میں اس بار ایسی قیادت کو سامنے لایا جائے گا، جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ کیوں کہ ملکی معاشی حالات اس قدر خراب ہیں کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں رسک لینے کو تیار نہیں، مگر وہ عمرانی حکومت کو برداشت کرنے کے لیے بھی کسی طور رضامند نہیں۔
عمران خان کی تمام تر پالیسی جن خدوخال پر چل رہی ہے، اس کی کوئی کُل سیدھی نہیں۔ اپوزیشن کا گمان تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل ایکٹوازم میں کئی ایسے فیصلے کردیے ہیں، جن کے اثرات سے ملکی سیاست کو مستقبل میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اب کئی اعلیٰ ترین حکام کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کر رہی ہیں، جس کے بعد سیاسی جماعتیں کسی قسم کا توقف نہیں کریں گی۔ اس وقت مکمل طور پر انڈر گراؤنڈ و فرنٹ پر کام کیا جا رہا ہے۔ ’’اِن ہاؤس‘‘ تبدیلی سے جاری نظام کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی پر اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ صرف چہروں کی تبدیلی ہوگی اور یہ آئین میں دیے گئے طریقۂ کار کے مطابق ہوگا۔ موجودہ حکومت، اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے پر تیار نظر نہیں آتی۔ گو کئی معاملات میں اپوزیشن نے حکومت کو اصولی مؤقف پر مل جُل کر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے، لیکن حکومت جن پتوں پر تکیہ کررہی ہے، وہ جلدہی ہوا دے سکتے ہیں۔
موجودہ حکومتی پالیسی کے بارے میں کسی قسم کے شکوک کی گنجائش نہیں رہی کہ طویل بریفنگ کے باوجود وزرا اپنے طور طریقوں میں تبدیلی نہیں لارہے، اور بتدریج حکمراں جماعت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ چوں کہ حکومت کے پاس دوتہائی تو کیا، سادہ اکثریت بھی نہیں۔ اس لیے ان کے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں کہ اپوزیشن کے ساتھ نیا عمرانی معاہدہ کرلیں، یا پھر دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر ’’دوبارہ حکومت بنوانے‘‘ کے لیے اسمبلیوں کو تحلیل کردیں۔
دوسری طرف بدقسمتی سے موجودہ حکومت کی کارکردگی مکمل ’’صفر‘‘ ہے۔ عوام بالکل مطمئن نہیں۔ مہنگائی، گیس، بجلی، ٹرانسپورٹ اور ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ بدترین تجارتی خسارے، قرضوں اور سود میں اضافے اور متوسط طبقوں میں مستقبل کے حوالے سے چھے مہینے کی کارکردگی نے تحریک انصاف کا امیج بُری طرح متاثر کیا ہے۔ انتخابی منشور میں جتنے بھی وعدے کیے گئے تھے، ان پر 20 فیصد بھی عمل درآمد نظر نہیں آتا۔
جہاں یہ صورت حال ہے، وہیں دوسری جانب لاکھوں افراد یومیہ روزگار سے محرو م ہوچکے ہیں، ان کا غصہ بھی عروج پر ہے۔ لگتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے پاس اب اسمبلیاں تحلیل کرنے کی ہمت بھی نہیں رہی۔ ہر معاملے کو اپوزیشن کے سر تھوپنے کی روش نے پی ٹی آئی کے لیے ماحول سازگار بنانے کی بجائے مزید گنجلک بنا دیا ہے ۔ بلاشبہ ہر دور میں کسی بھی حکومت کا دورِ اقتدار آئیڈیل قرار نہیں دیا جاسکتا، لیکن بد سے بدتر حالات کا ایسا سامنا ہوگا کہ جس سے عوام چیخ پڑیں گے، شائد خود تحریک انصاف کو بھی یہ امید نہیں تھی۔ کہ ابتدائی مہینوں ہی میں عوام کی چیخیں نکل جائیں گی۔
سیاسی جماعتوں سے اختلاف اپنی جگہ اور ان پر تنقید کے لیے مناسب فورم کا انتخاب کرنا سیاسی رہنماؤں کا کام ہے، لیکن راقم کے سامنے تحریک انصاف کے ہمدردوں نے اپنے رہنماؤں کو جن القاب سے نوازا ہے ، ضبط تحریر میں نہیں لاسکتا۔ ذاتی طور پر پاکستان کے مہنگے ترین تاریخی انتخابات کا یہ حال دیکھنے کے بعد قطعی مشورہ نہیں دیا جاسکتا کہ حکومت کو فارغ کردیا جائے، نئے انتخابات کرائے جائیں، لیکن اِن ہاؤس تبدیلی کی دعوت جب خود تحریک انصاف دے رہی ہے، تو نقار خانے میں توتی کی آواز کون سنے گا؟ اتحادی جماعتوں نے اپنی حلیف جماعت پر وعدہ خلافی کے جو الزامات و تحفظات کا اظہار کیا ہے، وہ صبح شام ہمارا میڈیا فرض سمجھ کر دکھارہا ہے۔ یہاں تک کہ جو بیشتر میڈیا ہاؤسز تحریک انصاف کے ترجمان بنے ہوئے تھے، وہ بھی اب اتنے بے زار نظر آتے ہیں کہ ان کے پاس حکومت کی تعریف اور کارنامے بیان کرنے کے لیے کوئی اسکرپٹ نہیں۔ پرائم ٹائم میں جو ٹاک شوز ہو رہے ہیں وہ پی ٹی وی کا خبرنامہ لگ رہے ہیں۔
دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ اس سے پاکستانی عوام کو بے خبر رکھا جانا شاید مخصوص منصوبہ بندی لگتی ہے۔ برطانیہ تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، فرانس میں مہنگائی کے خلاف عوام کئی ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں، امریکہ میں صدر ٹرمپ اور ڈیمو کریٹس کے درمیان شٹ ڈاؤن ختم ہونے کو نہیں آ رہا، ایران، شام، ترکی، عراق، یمن اور بھارت میں کیا ہو رہا ہے؟ کسی کو کچھ خبر نہیں۔ بس میڈیا نے پوری قوم کو کنویں کا مینڈک بنا کر رکھ دیا ہے ۔ ایسا کب تک چلتا رہے گا؟ اور ہم کب تک اجتہاد کی راہ روک کر جمود کا شکار رہیں گے؟ پاکستان جل رہا ہے۔ قوم کو بانسری سے نہ بہلائیں۔ حقیقی دنیا میں آئیں۔ کیا میڈیا ہاؤسز نے کبھی ادراک کیا کہ خبرناموں، ٹاک شوز اور انٹرویوز میں ماورائی دھماچوکڑی دکھانے سے قوم کی کیا حالت ہوگئی ہے؟ کیا انہیں ایسا نہیں لگتا کہ جیسے کوئی تامل فلم دیکھ رہے ہیں؟

………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔