آج میں آپ کو خیبرپختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے ایک چلتے پھرتے انسائیکلو پیڈیا سے متعارف کروانے جا رہا ہوں، جو بہ یک وقت سیاح، مؤرخ، دانشور، ادیب، ماہرِلسانیات اور آرکیالوجسٹ ہیں۔ تاریخ سے گہرا شغف رکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہاں کی علاقائی بولیوں اور تہذیب و ثقافت پر وسیع مطالعہ کیا ہوا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ چیزیں انہوں نے ایک توتے کی طرح رٹی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے ان کے ڈھیر سارے مضامین اُردو، پشتو اور انگریزی زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ یہ بڑا دلچسپ اور ہر دل عزیز بندہ ہے۔ ان کی باتیں مِزاح سے بھری ہوئی ہوتی ہیں، جو قاری کا تجسس بڑھا دیتی ہیں۔ یہ اپنے سامع کو اُکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ میرے اس دعویٰ کی گواہی وہ لوگ بہتر طور پر دے سکتے ہیں، جو اُس سے مل چکے ہوں۔ یہ جس مجلس کی زینت ہوتے ہیں، وہ تاریخ، تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کی معلومات پر مبنی ہوتی ہے اور انہی کی وجہ سے وہ محفل زعفران زار بھی بن جایا کرتی ہے۔ یہ باغ و بہار شخصیت سوات منگلور سے تعلق رکھنے والے پرویش شاہین کی ہے۔
یہ مضبوط جسم کے مالک ہیں۔ غالب گماں ہے کہ اگر لکھاری نہ ہوتے، تو اکھاڑے کے لڑاکو پہلوان ہوتے۔ اس بندے کی زندگی کے اتنے رنگ ہیں جس کا احاطہ اس ایک تحریر میں کرنا مشکل ہے۔ اگر میری اس تحریر میں ان کے حوالے سے کوئی کمی بیشی آ جائے، تو آپ اسے ان کی شخصیت پر نہیں بلکہ میری ناقص معلومات پر محمول کیجیے گا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پرویش شاہین نے اپنی تصنیف و تالیف سے بہت شہرت اور دولت کمائی ہے، مگر اس دولت سے انہوں نے تجوریاں نہیں بھریں بلکہ اس کو اپنے خوابوں کو عملی شکل دینے پر صرف کیا ہے۔ جس میں تحقیق اور سیاحت پر مبنی کتب ’’گلورینی سوکے، د سوات گلونہ، کافرستان، د پختونخوا گلونہ، د پختنو ژوند ژواک، کالام کوہستان، مشرق کا سوٹیزرلینڈ‘‘ اور اس طرح دیگر کتب کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ایک دفعہ گپ شپ میں، مَیں نے اُن سے ذریعۂ معاش کے بارے میں پوچھا، تو کہنے لگے کہ "محکمۂ تعلیم میں ملازم ہوں اور بچوں کو پڑھاتا ہوں۔” مَیں کہاں اس کا یقین کرنے والا تھا۔ کیوں کہ مَیں نے تو اس کو شب و روز پشتو زبان کے حوالے سے تقریبات اور سیمینارز میں دیکھا تھا۔ باقی کا وقت یہ غیرملکی سیاحوں اور محققین کے ساتھ سوات کے حسین نظاروں میں چھپی تہذیب و ثقافت، رسم و رواج پر کام کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ یہ کیوں کر بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔ اس بات کا یقین تب ہوا جب میں نے ان کو "نحقی اور ہزار خوانی ہائیر سیکنڈری” میں پرنسپل کے عہدے پر دیکھا۔ یہاں آ کر یوں لگا جیسے کسی نے شاہین کو بیڑیوں میں باندھا ہو۔ یہاں صرف ان کی زبان چل رہی تھی۔
ایک دفعہ مجھ سے کہنے لگے کہ اچھا ہے کہ محکمۂ تعلیم کا ملازم ہوں۔ یہاں صرف باتیں ہوتی ہیں، عمل کوئی نہیں ہوتا۔ ان کی یہ بات سولہ آنے درست ہے۔ کیوں کہ شاہین باتوں کے فن میں یکتا ہیں۔ شاہین کے اس فن پر کراچی کے شاعر بادشاہ خان کہتے ہیں کہ "ریل گاڑی کا سفر ہو اور پرویش شاہین کا ساتھ ہو، تو کراچی سے پشاور تک راستے کا پتا بھی نہ چلے۔”
باجوڑ کے آفریدی قبائل سے تعلق رکھنے والے ایک لکھاری نے اپنے علاقے کے ایک باتونی ملک صاحب (جو اُس کے یار تھے) سے شرط لگائی کہ اگر تم نے شاہین سے گفتگو کے دوران میں اپنی بات گوش گزار کی، تو انعام میں تمھیں ایک پُر تکلف کھانا کھلاؤں گا۔ دونوں دن کے دس بجے شاہین کے ہاں پہنچے۔ بات آفریدی قبائل کے حوالے سے شروع ہوئی۔ لکھاری کو اُن کی عادت کا پتا تھا، وہ خاموش سامع بن کر انہیں سنتا رہا۔ ملک صاحب بار بار کوشش کرتے رہے کہ اپنی بات بھی کہے، مگر بے سود۔ جب بھی ملک صاحب کچھ کہتے، شاہین اُسے یہ کہہ کر خاموش کرا دیتے کہ "تہ غلے شہ، بیا زما نہ خبرہ ہیریگی” یعنی "تم چُپ رہو، قطع کلامی سے مَیں اپنی بات بھول جایا کرتا ہوں۔” اس طرح دوپہر سے سہ پہر اور پھر شام ہوگئی، مگر ملک صاحب، شاہین سے بازی نہ لے سکے۔ ان کی باتوں کے دوران میں ہمیں نیند آ گئی، اور بارہ بجے کے قریب ہم سوگئے۔ تب کہیں جا کر شاہین چپ ہوئے ہوں گے۔ فجر کو شاہین پھر حاضرِ خدمت تھے۔ سلسلۂ کلام یوں باندھا کہ آپ سے جانے کے بعد ایک بڑی ہی مفید کتاب ہاتھ لگی، اس کا کچھ اقتباس بیاں کرتا ہوں۔ ملک صاحب نے حیرانی سے پوچھا، آپ سوتے نہیں؟ شاہین کہنے لگے، فقط دو تا تین گھنٹے سوتا ہوں، مگر آج آپ کی خاطر وہ بھی قربان۔ شاہین جب ناشتہ لانے گھر روانہ ہوئے، تو ملک صاحب نے لکھاری کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا، "باڑ میں جائے تمھارا کھانا، مجھے یہاں سے بخیر و عافیت نکالو۔”

پرویش شاہین اپنی ذاتی لائبریری میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ (فوٹو: زبیر توروالی)

پرویش شاہین ایک مزاحیہ شخصیت کے مالک ہیں۔ انہیں ہر وقت کوئی نہ کوئی مضحکہ خیز صورتحال کا سامنا ضرور رہتا ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے، صوبہ خیبر پختونخوا کی ثقافت کے ایک سیکرٹری نے اعلان کیا کہ پشتو زبان اور تہذیب و ثقافت پر کام کرنے والے لکھاری جو اپنی تحقیق شائع کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، تو حکومت اُن کی کتب شائع کرنے کا ذمہ لے گی۔ اس سلسلے میں پرویش شاہین بھی اُن کے در پر حاضر ہوئے۔ شاہین سے پہلے بہت سارے لکھاری سیکرٹری صاحب کا دماغ چاٹ چکے تھے۔ انہوں نے جا کر سیکرٹری صاحب کے اردلی سے کہا کہ سیکرٹری صاحب سے کہو کہ سوات کے شاہین آپ سے ملنے آئے ہیں۔ سیکرٹری جو پہلے ہی شاعروں اور ادیبوں سے مل کر تھک چکے تھے۔ نام کے مغالطے میں آ گئے کہ کوئی "فنکارہ” یا "مصنفہ” ملنے آئی ہے۔ سیکرٹری جلدی جلدی دوسرے ادیبوں کو فارغ کرکے شاہین کی راہ تکنے لگا۔ اس دوران میں سیکرٹری صاحب نے اپنا حلیہ درست کیا۔ خوشبو لگائی اور سوچوں میں کسی گل اندام، نازک حسینہ کی خاطر نظریں دروازے پر گاڑے منتظر تھا، مگر یہ کیا کہ دروازے پر ایک پہلوان نمودار ہوا۔ موصوف نے غصہ ہوتے ہوئے کہا کہ تمہیں کس نے اندر آنے دیا؟ ابھی سوات ’’کی‘‘ شاہین کی باری ہے۔ جاؤ، اس خاتون کے بعد تم آجانا۔ شاہین جواباً گویا ہوئے، صاحب! میں ہی شاہین ہوں اور آپ کی اجازت سے اندر آیا ہوں۔ یہ سنتے ہی صاحب کا پارا چڑھ گیا اور تقریباً چیختے ہوئے کہا کہ نکل جاؤ ورنہ……!
اب ایک اور مضحکہ خیز صورتحال ملاحظہ ہو۔ ایک دفعہ شاہین ڈاکٹر ہُک (Dr. HUK) کے ساتھ سکردو میں واقع ’’رنگا‘‘ نامی علاقے میں اُن کی بولی پر تحقیق کرنے کے لیے گئے۔ جیسے ہی یہ لوگ گاؤں میں داخل ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہاں کے کوئی بیس، تیس کے قریب باسی اپنی زبانیں باہر نکالے ہوئے دو قِطاروں میں ان کا استقبال کر رہے ہیں۔ شاہین نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون سا طریقہ ہے استقبال کا؟ تو اُن میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ کل ہمارے علاقے کے ملک صاحب آئے تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ کل کچھ بیرونی ڈاکٹرز آئیں گے اور آپ کی زبانوں پر تحقیق کریں گے۔ اسی بنا پر ہم نے ایسا کیا ہے، تاکہ آپ کو ہماری زبانوں پر تحقیق میں کوئی دقت پیش نہ ہو۔
تحقیق اور سیاحت میں شاہین کے ساتھ اکثر ایسی صورتحال جنم لیا کرتی ہے۔ برسبیلِ تذکرہ ایک دفعہ آپ کوالالمپور میں گوتم بدھ کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمینار میں گوتم بدھ پر مقالہ پڑھنے کے لیے مدعو ہوئے۔ وہاں پر جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا، اگر یہاں ہوتا، تو شاید ہی شاہین کسی سے نظر ملا پاتے۔ ہوا کچھ یوں کہ شاہین نے سیمینار میں اپنا مثالی مقالہ "گوتم بدھ سوات میں” پڑھا، تو ہال میں ایک ہو کا عالم چھا گیا، اور سب انگشتِ بدنداں پرویش شاہین کو تکتے رہے۔ اس سیمینار میں بدھ مت کے کچھ اکابرین بھی موجود تھے۔ سامعین میں جو ان کے ہم خیال تھے، نے آپس میں سر جوڑ لیے کہ یہ بندہ کمال سے خالی نہیں، اس کو "پرکھنا” چاہیے۔ اس میں ضرور بزرگی کی کوئی علامت نکل آئے گی۔ سیمینار کے اختتام پر اُن لوگوں نے شاہین کو گھیر لیا اور اس کے ساتھ کھینچا تانی اور مڈبھیر میں لگ گئے۔ کیا وہ اور کیا شاہین، مگر بالآخر قابو میں آگئے اور انھوں نے شاہین کو الف ننگا کرکے ہی دم لیا۔ وہ اس کے بدن کا ہر زاویہ سے جائزہ لینے لگے، اعضا کو پرکھا، مگر بزرگی کی کوئی نشانی ہاتھ نہ آئی اور مایوس ہوکر ان کو چھوڑ دیا۔ شاہین نے ان کی اِس حرکت کو بھی دل پر نہ لیا۔ بقولِ ڈاکٹر اسرار
باک نشتہ دے کہ چم کی د اشنا شوم خپیال پہ خپے
پہ زائے دہ عبادت کی خو پنڑے وستل پکار دی
میرا ایک دوست خیبر پختونخوا کی تاریخ، آثارِ قدیمہ اور یہاں کے مذاہب سے گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ سنہ 1983ء میں رحمانؔ بابا کے عرس پر مَیں نے اُس کو پرویش شاہین سے متعارف کروایا۔ میرے دوست نے اُن سے گوتم بدھ کے حوالے سے سوالات کیے، جس کے جواب میں پرویش شاہین نے متواتر پورے چار گھنٹے زبانی معلومات دیں۔ بعد میں میرے دوست مجھے کہنے لگا کہ مجھے تو یہ شخص گوتم بدھ کا لنگوٹیا یار معلوم ہوتا ہے۔ یہ اُس کی ہر عادت اور بات کا علم رکھتا ہے۔ اس ملاقات سے کچھ دن بعد مجھے اسی دوست کے ساتھ پشاور میوزیم جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پر گوتم بدھ کے مجسمے کا مشاہدہ کرتے ہوئے اچانک کہنے لگا، "یار! یہ گوتم بدھ تو مجھے پٹھان لگ رہا ہے۔ اس کی شکل و صورت اور پہناوا تو بالکل پٹھانوں کی طرح ہے۔” پھر کچھ اور غور و فکر کر کے گویا ہوا کہ، "ارے یار! یہ تو ہوبہو پرویش شاہین ہے۔” اس پر میری ہنسی چھوٹی۔ اس کے اصرار پر جب میں نے مجسمہ کو بغور دیکھا، تو مجھے بھی یہی گماں گزرا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے احساس ہوا کہ ہم ابھی تک شاہین کی تقریر کے زیرِ اثر ہیں، اور بے اختیار شاعر کا یہ مصرعہ لب پر آیا کہ
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
اس واقعہ کے بعد جب کبھی میں عجائب گھر گیا ہوں، یا کسی کو گوتم بدھ کے حوالے سے سنا ہے، تو ہمیشہ پرویش شاہین بے اختیار یاد آئے ہیں اور سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ پرویش شاہین ہمارے دور کا ہم عمر بندہ ہے اور سوات منگلور کا رہائشی ہے۔ دونوں میں قدرِ مشترک عادات و اطوار کے علاوہ بے ضرر ہونا ہے۔ پرویش شاہین اور گوتم بدھ، رحمانؔ بابا کے اس شعر پر مکمل عمل پیرا نظر آتے ہیں:
کہ سل خُلی درتہ دعا کوی رحمانہؔ
دہ یوی خلی دہ آزارہ زان ساتہ
دونوں اپنے اُصول اور وعدے کے پکے انسان ہیں۔ شاہین یاروں کے یار ہیں۔ وہ دوستی میں آخری حد تک جاتے ہیں اور یار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ وہ اس قول پر پورا اُترتے ہیں کہ: "محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے” لیکن آج تک میں نے پرویش شاہین کو کسی کے ساتھ لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ ڈھیر سارے لکھاری اور مقررین نے اس کے خلاف بہت کچھ کہا ہے اور لکھتے بھی رہتے ہیں، مگر شاہین کا ظرف کہ انہوں نے چُپ کا روزہ رکھا ہے۔ لوگ شاہین کے خلاف بولتے ہیں، چیختے ہیں مگر وہ پروا نہیں کرتا۔ لوگ کڑھتے ہیں اور پھر چیخ چیخ کر خود ہی چپ ہو جاتے ہیں۔ ان کی اِسی خاصیت کا فائدہ اُٹھا کر میں نے بھی اُن کا یہ زیرِ نظر خاکہ کھینچا۔ اب فیصلہ قارئین کے ہاتھ میں ہے کہ میں اس میں کتنا حق بجانب ہوں؟ (گل محمد بیتاب کی پشتو خاکوں کی کتاب "روخانہ سیرے” مطبوعہ "عامر پرنٹ اینڈ پبلشرز پشاور” سے خاکہ "بدھا” کا ترجمہ)

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔