نواز لیگ، جسے یہاں کا پرانے اور بڑے سرمایہ دار طبقے کا سنجیدہ سیاسی نمائندہ گردانا جاسکتا ہے، کی حکومت نے سنجیدگی سے ایسے بہت سے اقدامات کرنے کی کوشش کی جن سے کچھ استحکام پیدا کیا ہو۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے، کالی معیشت کوقانونی دھارے میں لانے، نجکاری، ہندوستان کے ساتھ تجارت کھولنے، ملک کے اندر اور باہر بنیاد پرست پراکسیوں کی پشت پناہی کی پالیسی ختم کرنے، یمن میں فوجیں بھیجنے سے انکار، افغانستان میں سٹریٹجک ڈپتھ کی پالیسی ترک کرنے اور سویلین بالادستی قائم کرنے کی کوششیں بہ حیثیت مجموعی نظام میں ایسی لبرل اصلاحات کرنے کی سعی تھیں جس سے امن و امان کی صورت حال کچھ بہتر ہو اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کو کم کیا جاسکے، تجارت کو فروغ دیا جائے اور سرمایہ کاری کے لیے سازگارماحول قائم کیا جائے۔ نواز شریف یہ سب کچھ کسی انقلابی نیت سے نہیں بلکہ خود اپنے طبقے اور قومی سرمایہ داری کو ٹھوس کردار دینے کی کوشش کے تحت کر رہا تھا، لیکن اس سے کچھ طاقتور قوتوں کے ساتھ جو ٹکراؤ پیدا ہوا، اس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔ نواز شریف کا مسئلہ یہ تھا کہ ایک تووہ نواز لیگ کے ذریعے مزاحمت کی کوشش کررہاتھا، جو کبھی مزاحمتی پارٹی نہیں رہی ہے بلکہ بنیادی طور پر دکان داروں اور تاجروں کی دائیں بازوکی پارٹی ہے، جس کا خمیر ضیاء الحق کی رجعتی آمریت سے اُٹھا تھا۔ دوسرا یہ کہ مروجہ سیاست کے لحاظ سے اگر چہ نواز شریف اور مریم نواز نے بہت جارحانہ لفاظی کااستعمال کیا، جس کی مثال شاید پنجاب کی حاوی سیاست میں پہلے نہیں ملتی، لیکن ان کے تمام نعرے اور لفاظی اسی نظام کی حدود میں مقید تھی جس میں وسیع ترعوام کے لیے کوئی خاص کشش موجود نہیں تھی۔ اس کے باوجود نواز شریف اور مریم نے بڑے جلسے کیے۔ آبادی کا ایک حصہ جس میں درمیانے طبقے کے علاوہ محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتیں بھی شامل تھیں، ان کی طرف متوجہ ہوا، جس میں 2013ء کے بعد ہونے والے معاشی پھیلاؤ اور نسبتاً استحکام جیسے عوامل کار فرما تھے، لیکن محض ’’مظلومیت‘‘ اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ جیسے کمزور اور مبہم نعرہ کے ذریعے ایک وقت تک ہی لوگوں کی حمایت یا ہمدردیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس حمایت اور ہمدردی کو جرأت مندانہ تحریک اور بغاوت میں بدلنے کے لیے پھرپارٹیاں اور عام لوگوں کی نجات کے انقلابی پروگرام درکار ہوتے ہیں جو ان کے پاس نہیں تھے۔ لیکن اس پوری تحریک کا بیڑا غرق کرنے میں پھر شہباز شریف جیسے ’’مصالحتی عناصر‘‘ کا بنیادی کردار تھا، جنہوں نے سزا سنائے جانے کے بعد لاہور میں نواز شریف اور مریم کے استقبال کے لیے نکلنے والی ریلیوں کو نہ صرف دانستہ طور پرسبوتاژ کیا بلکہ جو لوگ آئے (جن کی تعداد کچھ کم نہیں تھی) انہیں بھی مال روڈ کی سیرکرواتے رہے اور ائیر پورٹ نہ پہنچنے دیا۔ اگر ٹھیک نیت سے ان ریلیوں کو منظم کیا جاتا، تو کم ازکم طاقت کا بڑا مظاہرہ کیا جاسکتا تھا۔ روکے جانے کی صورت میں لاہور اور دوسرے شہروں میں خاصی ’’ایجی ٹیشن‘‘ کی جاسکتی تھی اور اس سارے ’’مومینٹم‘‘ کو آگے انتخابات کی طرف موڑا جاسکتا تھا۔ فی الوقت پورا زور لگا کر نواز کو پچھاڑ تو دیاگیا ہے، لیکن بھاری قیمت پر حاصل کی گئی یہ جیت کیا’’مستقل جیت‘‘ ثابت ہوگی؟
پاکستان کے ہر انتخابات میں ریاست کی مداخلت موجود رہی ہے، لیکن حالیہ انتخابات میں جس طرح میڈیا کے ذریعے نوازلیگ کے خلاف ایک زہریلی مہم چلاکر ’’پری پول رگنگ‘‘ کی گئی اور پھر پولنگ کے بعد جس طرح سے مسلسل تاخیر کرکے مرضی کے نتائج مرتب کروائے گئے، اس کی مثال شاید پہلے کبھی نہیں ملتی۔ نہ صرف ہارنے والے بلکہ جیتنے والے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی جیت کی حقیقت کیا ہے؟ اورکتنے بڑے پیمانے پر کھلواڑ کرکے ’’جمہوریت کا تسلسل‘‘ جاری رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے ساتھ بھانت بھانت کے چوروں اور فراڈیوں کو جوڑ کر بنائی جانے والی حکومت کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلم لیگ اور تحریک انصاف دونوں کی سماجی حمایت درمیانے طبقات میں موجود ہے، لیکن پھر ’’درمیانے طبقے‘‘ کو گہرائی میں دیکھ کر دونوں پارٹیوں سے وابستہ سماجی رجحانات میں تمیز کرنا ضروری ہے۔ مسلم لیگ کی حمایت درمیانے طبقے کی جس پرت میں موجود ہے، وہ چھوٹے سرمایہ دار، تاجر اور دکان دار کی شکل میں ہے۔ یہ بالعموم تجارت سے وابستہ چھوٹے کاروباروں والا درمیانہ طبقہ ہے۔ اس پرت سے اوپر مسلم لیگ جس طبقے کا نمائندہ رجحان رہا ہے، وہ بڑے سرمایہ دار ہیں جو زیادہ تر صنعت سے وابستہ ہیں۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کی سماجی بنیادیں 1980ء کے بعد نیو لبرل سرمایہ داری کے ارتقا (بالخصوص سروسز سیکٹر کے پھیلاؤ) کے نتیجے میں پیداہونے والے درمیانے طبقے پر مبنی ہیں۔ یہ زیادہ ترنوکری پیشہ وائٹ کالر شہری مڈل کلاس ہے جسے نجی تعلیمی اور کاروباری اداروں کا کارپوریٹ زدہ پڑھا لکھا طبقہ بھی کہا جاسکتا ہے، جو پچھلی تقریباً دو دہائیوں میں تیزی سے پھیلا ہے۔
1980ء کی دہائی کے بعد کے مخصوص ماحول میں میڈیا اور نصابوں کے ذریعے اس شہری مڈل کلاس کی ذہن سازی اور تربیت ’’ضیاء الحقی اقدار اور اخلاقیات‘‘ میں ہوئی ہے۔ جس کے بے ہودہ ماڈرنزم کے ساتھ ملغوبے نے ایک عجیب تذبذب، ڈھٹائی اور نیم فسطائی منافقت کو جنم دیا ہے۔ مولوی طارق جمیل سے لے کر بڑی بڑی کوٹھیوں میں ’’درس‘‘ کرنے اور کروانے والی میک اَپ میں لتھڑی اور رنگ برنگے بیش قیمت حجابوں میں ملبوس بیگمات تک سے روح کی غربت ہی جھلکتی ہے۔ ظاہریت پرستی، طاقت سے مرعوبیت، مقابلہ بازی اور موقع پرستی اس طبقے کا بنیادی خاصا ہے۔ دکان دار یا تاجر طبقے کی نسبت اس طبقے کے لوگ زمینی حقائق سے کہیں زیادہ کٹے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں ’’اپنی محنت سے آگے بڑھنے‘‘ کی مخصوص نفسیات کے تحت ان کے شعورمیں ’’فردِ واحد‘‘ کا کردار مبالغہ آرائی کی حد تک بڑھ جاتا ہے۔
نواز شریف کا المیہ یہ بھی ہے کہ اس کی حکومت کی نیم نیو لبرل معاشی پالیسیوں سے تیزی سے ابھرنے والا یہ نیا درمیانہ طبقہ، جو اپنی تمام پرتوں سمیت آبادی کا تقریباً 20 فیصد تک بنتا ہے، جس فرسٹریشن کا شکار ہوا اور اُس کو اوپر چڑھنے اور اپنی مالی و سماجی حیثیت بڑھانے کی جو جلدی تھی ایسے میں اسے مذہبیت اور ماڈرنزم کے ملغوبے پر مبنی عمران خان کی ’’تبدیلی‘‘ کا راستہ نظر آیا۔ ہر طبقہ اپنے عکس پر اپنی سیاست تشکیل دیتا ہے۔ اگر عمران خان اور تحریک انصاف کے دوسرے کلیدی لوگوں پر غور کیا جائے، تو حیران کن حد تک اَپ سٹارٹ ہیں جن کے گرد پھر چھوٹے بڑے دوسرے نو دولتیوں، کیرئیراسٹوں اور شاہ محمود جیسے نو سربازوں کا پورا مجمع ہے۔ نیچے سے اوپر تک اس پورے سیاسی رجحان کا کلچر اس قدر بدبودار ہے جس کی مثال کسی دوسری سیاسی پارٹی میں نہیں ملتی۔ یوں عمران خان کی تضادات سے بھری شخصیت اور احمقانہ باتیں، محدود سوچ، ادھورا سچ اور بدتہذیبی اُس کی کمزوریاں نہیں بلکہ وہ بنیادی خاصیتیں ہیں جو اس طبقے کو اپیل کرتی ہیں اور اس کا رہنما ہونے کی بنیادی شرائط ہیں۔ اگر وہ معقول باتیں کرنے لگے، تو ایک دن میں اس مڈل کلاس کی حمایت کھودے۔ جب وہ اپنی ’’مخصوص مصروفیات‘‘ سے فارغ ہوکر سٹیج پر چڑھ کر مدینہ کی ریاست بنانے کی بات کرتا ہے، تو اس کے اندر اس کا طبقہ بول رہا ہوتا ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام کے نام پر اور مدینہ کے نام پر اس سے پہلے اسی طبقے کے کتنے لوگوں نے عوام کو دھوکا دیا ہے؟ یہ دھوکا اور فریب پہلی بار تو نہیں دیا جا رہا۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔