پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زادری اور  ان کی بہن فریال تالپور کی ضمانت میں توسیع سے قبل گرفتاری کی خبروں اور بلاول بھٹو زرداری کو نیب کی طرف سے بھیجے جانے والے نوٹس نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ پی پی پی کے اراکینِ اسمبلی کو ممکنہ گرفتاری سے قبل لائحہ عمل کے طور پر بینکنگ کورٹ پہنچنے کی ہدایات بھی دی گئی تھی۔ پی پی پی قیادت کے خلاف تحریکِ انصاف کی جانب سے امریکہ میں مبینہ جائیداد اپنے انتخابی گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے پر نا اہلی کی درخواست بھی میڈیا میں منظر عام پر آئی۔ ایسا ظاہر کیا جانے لگا جیسے آصف زرداری نااہل ہوچکے ہیں۔ ایسا لگا ہے کہ جیسے درخواست نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ سنایا جا رہا ہو۔ 7 جنوری تک ضمانت کی توسیع نے فی الحال "دم دما دم مست قلندر” کا راستہ روک دیا ہے، لیکن آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کو پی پی پی نے انتہائی سنجیدہ لیا ہوا ہے، اور اس سلسلے میں سیاسی ہیجانی کیفیت موجودہ حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔
سابق صدر کے خلاف تحریکِ انصاف نے الیکشن کمیشن میں نااہلی کے لیے درخواست بھی جمع کرا دی ہے کہ سابق صدر نے اپنے انتخابی گوشواروں میں امریکہ کی مبینہ پراپرٹی کو ظاہر نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن اس حوالے سے کب تک اور کیا فیصلہ کرتا ہے؟ اس حوالے سے حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ اس سے زیادہ سنجیدہ معاملات میں الیکشن کمیشن کی فیصلہ سازی میں سست روئی نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کے فنڈز میں بیرونِ ملک فنڈنگ کا معاملہ ہنوز زیرِ سماعت ہے۔ کبھی کبھار تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ملک بھر کی تمام عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیرِ سماعت ہیں، منصفوں کی تعداد کم ہے، لیکن الیکشن کمیشن اہم معاملات پر تاخیر کیوں کرتا ہے؟ ایسا کیوں ہے، راقم یہ سمجھنے سے قاصر ہے۔
امن کی بہتر ہوتی صورتحال کے حوالے سے اچھی خبریں پاکستانی عوام کو ملنا شروع ہوگئی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے تین ارب ڈالر دینے کی خبر معیشت کو بہتر بنانے کی پالیسی میں معاونت کے حوالے سے آئی۔ سعودی عرب کے بعد متحدہ عرب امارات کی مالی امداد موجودہ حکومت کے لیے مثبت خبر ہے اور اب چین کی جانب دیکھا جا رہا ہے کہ چین نے پاکستانی وزیر اعظم کے طویل دورے کے نتیجے میں کیا یقین دہانیاں کروائی ہیں؟ اس حوالہ سے بھی ابھی منظر عام پر کچھ نہیں آیا، لیکن اس بات کا یقین ہے کہ چین پاکستان کی بھرپور امداد و تعاون کرے گا۔ کیوں کہ "ون بیلٹ ون روڈ” کی شہ رگ پاکستان ہے۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور سعودی عرب سے لے کر چین تک پاکستان سے تعلقات شخصی نہیں بلکہ ریاستی ہیں۔ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ہمیشہ ریاست ہی ریاست سے رابطہ اور تعاون کرتی ہے۔
دوسری طرف سعودی عرب کے ولی عہد کی نئے برس فروری کے اوائل میں ممکنہ دورۂ پاکستان کی خبر خوش آئند ہے اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بہتر تعلقات نے پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ روز بہ روز بہتر تعلقات نے ایک اچھا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ انہی اچھی خبروں میں آسٹریلیا کرکٹ ٹیم کے پاکستان دورے کے امکانات پر غور و فکر کی خبر بھی خوش آئند ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کراچی میں اسٹریٹ کرکٹ کھیل کر اہلِ کراچی کو بھی حیران کر دیا اور امن و امان کے حوالے سے دنیا بھر میں بہت اچھا پیغام گیا۔
پاکستان سے عالمی میڈیا میں بم دھماکے، خود کش حملے، ٹارگٹ کلنگ، بھتے، بدامنی اور سیاسی خلفشار کی ہی خبریں جاتی رہی ہیں۔ کافی عرصے کے بعد اچھی خبریں سننے کا موقع مل رہا ہے، تو روحانی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جب ملک میں دھیرے دھیرے سیاسی اختلافات اور دم دما دم مست قلندر ہونے والی سیاست کو دیکھتا ہوں، تو خدشات و تحفظات کا طوفان اٹھ جاتا ہے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتیں بُردباری کا مظاہرہ بھی کریں گی کہ نہیں؟ حکمراں جماعت کے چند وزرا تواتر کے ساتھ سیاسی ماحول کشیدہ بنا رہے ہیں۔ یہ عمل اچھی خبروں پر حاوی ہو رہا ہے اور عوام اچھی خبریں سننے اور دیکھنے کی بجائے وزرا کے بیانات پر بیزار نظر آنے لگے ہیں کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا؟
عوام کو ہی نہیں بلکہ اس ملک کو آگے جانا ہے۔ ہمیں آگے جانے کے لیے اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کرنا ہوگی۔ حکمراں جماعت کو اپنا معاشی ٹارگٹ مل چکا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے 9 ارب ڈالر (ادھار پیٹرولیم) ملنے کے بعد اب انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بھی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ لیکن شنید یہی ہے کہ حکومت اپنی معاشی پالیسیوں میں تاحال کامیاب نہیں۔ اس لیے حکومت کا آئی ایم ایف سے قرض لینا ناگزیر ہے۔ جنوری میں منی بجٹ کی خبروں نے بھی عوام اور کاروباری طبقے کو پریشان کیا ہوا ہے کہ کیا اب بھی غریب عوام پر بھاری بوجھ ڈالنا باقی رہ گیا ہے جس کی کسر جنوری 2019ء میں آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے منی بجٹ یا غیر روایتی طریقوں سے اضافی ٹیکس لگا کر پوری کی جائے گی۔
صرف پٹرول کی قیمت بڑھنے سے پوری معاشی صورتحال میں فرق آجاتا ہے۔ حکومت کی اقتصادی ٹاسک فورس کی جانب سے ایسا کوئی ابتدائی پلان (انڈے، مرغی اور کٹے کے علاوہ) بھی سامنے نہیں آیا، جس سے لگے کہ حکومت معاشی صورتحال پر قابو پانے کے لیے کن خطوط پر کام کر رہی ہے؟ بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ان کا تمام تر منصوبہ یہی ہے کہ "منی لانڈرنگ” میں ملوث افراد کو گرفتار کرو، ان سے رقم باہر نکلواؤ اور اس سے ہھی قومی خزانے کو بھرو۔ شاید یہی وجوہات ہوں کہ ایک جانب سابق وزیر اعظم اور ان کی ٹیم نیب کے مقدمات کا سامنا کر رہی ہے، تو دوسری جانب بے نامی اکاؤنٹ کا اژدھا پی پی پی قیادت کو جکڑنا چاہتا ہے۔ لیکن سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ کیا سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا کہ تحریک انصاف سمجھ رہی ہے یا پھر وہ ملک کے قانونی نظام سے بالکل ناواقف ہے؟ کہ یہاں ہر قسم کے فیصلے فوری نہیں ہوتے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) تو پاناما کی سونامی میں آئی، تو قیادت کے خلاف شکنجہ کسنے کا موقع مل گیا، لیکن کیا پی پی پی قیادت کے خلاف بے نام اکاؤنٹس کی ملکیت کا معاملہ جلد حل ہوجائے گا اور پی پی پی کسی ممکنہ گرفتاری یا فیصلے پر دم دما دم مست قلندر نہیں کرے گی؟ مجھے اس حوالے سے ذاتی تحفظات ہیں۔ تحریکِ انصاف نے جو پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ اس سے حکومتی خزانے میں منی لانڈرنگ کا پیسہ واپس آنے میں طویل عرصہ درکار ہوگا اور وہ بھی اُس وقت جب الزام سچ ثابت ہوجائے۔ لیکن اُن توقعات سے پہلے تحریک انصاف کو بھی تو کچھ کرنا ہوگا۔ ملک کا معاشی پہیہ چلانے کے لیے انہیں تجارتی پالیسی بھی تو دینا ہوگی۔ یہ مقدمات در مقدمات کا کھیل تو چلتا رہے گا، لیکن اس طرح کے مقدمات سے ملک کو درپیش معاشی مشکلات کا خاتمہ تو نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے تو سیاسی صورتحال مزید ابتر ہوگی اور جو اچھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں، وہ سب ریت کا ڈھیر ثابت ہوجائیں گی۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔