حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ ایک شیر کا بچہ گھومتے گھومتے بھیڑوں کے ریوڑ میں چلا گیا اور وہاں پر رہنے لگا۔ ان میں رہتے رہتے اس نے زندگی گزار دی۔ وہ بھول گیا کہ میں شیر ہوں۔ وقت گزرا۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ شیروں کا لشکر جا رہا ہے۔ جیسے ہی اس نے شیروں کے لشکر کو دیکھا، تو اسے خیال آیا کہ یہ تو مجھ سے ملتے جلتے لگتے ہیں۔ ان کے انداز، ان کے اطوار، ان کا طور طریقہ اور ان کے اندر جھلک میری ہے۔ اس نے دیکھا کہ شیر نے ایک دم بھیڑ کو شکار کر لیا اور کھا گیا۔ یہ دیکھ کر اس کے اندر کا شیر جاگ گیا۔
انسان کا اندر تب جاگتا ہے کہ جب وہ اپنے جیسے کو دیکھتا ہے۔ اگر کوئی درندگی کر رہا ہے اور اگر اس کے اندر درندگی ہے، تو وہ اس کو اچھا لگے گا، جس کے اندر گناہ ہے اور وہ کسی کو گناہ کرتے دیکھے گا، تو اسے ترغیب ملے گی۔ اور اگر اندر نیکی ہے، تو پھر نیکی کی ترغیب اندر کی سوئی ہوئی نیکی کو جگا دیتی ہے۔ (قاسم علی شاہ کی کتاب ’’اپنی تلاش‘‘ مطبوعہ ’’قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن‘‘ جلد اول، صفحہ 39 سے انتخاب)