’’چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور‘‘ سی پیک کو گذشتہ عرصے سے ہر مسئلے کا حل قرار دیا جا رہاہے۔ سرکاری پراپیگنڈا کی ایک یلغار ہے کہ بس ملک کی تقدیر بدلنے کو ہے، لیکن وقت کے ساتھ خود موجودہ سرمایہ دار میڈیامیں ایسے تجزیے اور رپورٹیں تواتر کے ساتھ آ رہی ہیں جن میں تسلیم کیا جا رہا ہے کہ یہ سارا منصوبہ بالواسطہ یا براہِ راست طور پر قرض پر مبنی ہے۔ یہ درست ہے کہ ’’سی پیک‘‘ کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری سے معیشت کی شرح نمو بلند ہوکر 5.8 فیصد تک گئی ہے، لیکن ایک تو یہ زیادہ تر ’’جاب لیس گروتھ‘‘ ہے جس میں زیادہ تعداد میں نیا روزگار پیدا نہیں ہوا ہے۔ دوسرایہ مستحکم نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ ٹھوس بنیادوں سے عاری منصوبہ ہے۔ لہٰذا لمبے عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا۔
علاوہ ازیں اس سے معیشت کے تضادات دبنے کے بجائے مزید بھڑک اُٹھے ہیں۔ مثلاً پچھلے پانچ سالوں میں بیرونی قرضوں کے حجم میں 30 ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوگیا ہے، لیکن ابھی تک ’’سی پیک‘‘ کے تحت ہونے والے معاہدوں کی مکمل تفصیلات منظرِ عام پر نہیں لائی گئی ہیں۔ مثلاً ابھی تک صرف ایک سرکاری دستاویز پچھلے سال ’’لانگ ٹرم پلان‘‘ کے عنوان سے شائع کی گئی ہے، جس میں معاشی راہداری کے منصوبوں کا عمومی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ سرمایہ کاری یا قرضوں کی شرائط، لیبر بھرتی کرنے کی پالیسی یا ٹھیکے دینے کے طریقۂ کار سے متعلق کوئی حتمی معلومات نہیں ہیں۔
سی پیک کا بڑا حصہ توانائی کے منصوبوں پر مبنی ہے۔ اس ضمن میں چینی کمپنیاں 35 ارب کی سرمایہ کاری بجلی کی پیداوار میں کررہی ہیں، لیکن یہ سرمایہ کاری پھر اُنہی شرائط پر ہورہی ہے جن پر 1990ء کی دہائی کے بعد یہاں تمام ’’انڈیپنڈٹ پاؤر پلانٹس‘‘ (IPPS) لگائے گئے ہیں اور جن کا خمیازہ ابھی تک عوام بھگت رہے ہیں، یعنی ان 35 ارب ڈالر کا 25 فیصد حصہ یہ کمپنیاں ’’ایکویٹی‘‘ کی مد میں لے کر آئیں گی جن پر سرکاری مؤقف کے مطابق انہیں 17 فیصد سالانہ ریٹرن (ڈالرز میں) دینے کی ضمانت دی گئی ہے۔
15 فروری 2017ء کو ’’ایکسپریس ٹریبون‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں سرکاری دستاویزات کی روشنی میں ہی ان معاہدوں کا کچا چٹھا کھولا گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق چینی کمپنیوں کو 27 سے 34 فیصد منافع دیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں کوئلہ بھی چین سے ہی درآمد کیا جا رہا ہے۔ 25 فیصد ’’ایکویٹی‘‘ کے علاوہ باقی 75 فیصد سرمایہ چینی بینکوں سے قرضوں کی صورت میں لیا جائے گا، جس پر سود کی شرح عمومی تاثر کے برعکس 2 فیصد نہیں بلکہ 6 فیصد ہے جب کہ انشورنس (جو پھر چینی انشورنس کمپنیاں ہی کریں گی) کی قیمت شامل کی جائے، تو ان قرضوں پر 13 فیصد سالانہ ادا کرناہوگا۔ بتایا یہی جا رہا ہے کہ یہ ادائیگیاں کمپنیوں کو خود سے کرنا ہوں گی، لیکن یاد رہنا چاہیے کہ 1994ء اور 2002ء کی پاؤر پالیسیوں کے مطابق حکومتِ پاکستان پلانٹ لگانے کے لیے حاصل کیے گئے قرضوں کی سروسنگ کی مد میں ’’آئی پی پیز‘‘ کو ماہانہ ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔ بالغرض یہ ادائیگیاں چینی آئی پی پیز نے ’’خود‘‘ بھی کرنی ہیں، تو یہ پیسہ بھی وہ یہاں سے ہی پورا کریں گی۔ لیکن اس سے ہٹ کر بھی اگر صرف 25 فیصد ’’ایکویٹی‘‘ پر 34 فیصد منافعوں کو ہی لیا جائے، تو یہ رقم تین ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے، جو اگلے پچیس سے تیس سال تک ملک سے باہر منتقل کی جائے گی۔
ان اعداد و شمار کی تصدیق آزادانہ ذرائع سے ’’وال سٹریٹ جنرل‘‘ نے بھی کی ہے۔ یہ جریدہ اپنے مضمون ’’چین کا عالمی تعمیراتی غل غپاڑہ پاکستان میں مسائل کا شکار‘‘ میں دلچسپ تبصرہ کرتا ہے کہ ’’منصوبے کے آغاز کے تین سال بعد پاکستان قرضوں کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے جس کی وجہ اورنج لائن جیسے منصوبوں کے لیے حاصل کیے جانے والے چینی قرضے اور درآمدات ہیں۔ 70 ممالک پر مبنی چین کے ’’روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے‘‘ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کے امریکی مارشل پلان سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ چین مشرق سے مغرب تک کے نئے تجارتی راستے کھولنا چاہتا ہے۔ اپنی کمپنیوں کے لیے کاروبار پیدا کرنا چاہتا ہے اور اپنا سٹریٹجک اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے، لیکن جہاں بعد از جنگ یورپ میں امریکیوں نے مالی امداد کا استعمال کیا تھا، وہاں چین زیادہ تر غیر شفاف قرضے دے رہا ہے جو اکثر چینی کمپنیوں کو ٹھیکے دینے سے مشروط ہوتے ہیں۔ پاکستان اب اُن کئی ممالک میں شامل ہے جو بے شمار چینی قرضے لینے کے مالیاتی اورسیاسی مضمرات سے نبرد آزما ہے۔ نئی حکومت کو ممکنہ طورپر آئی ایم ایف سے ’’بیل آؤٹ‘‘ لینا پڑے گا۔ بیل آؤٹ کی شرائط میں قرض لینے اور اخراجات کرنے پر پابندیاں بھی شامل ہوں گی جن کے پیشِ نظر پاکستان کوسی پیک پروگرام کو بھی مختصر کرنا پڑے گا۔ یہ چین کے لیے بڑی مخالفت کی بات ہوگی جواپنے منصوبے کو 20 کروڑ لوگوں کے اس ملک کے لیے ’’گیم چینجر‘‘ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
ملائیشیا، جو پاکستان کے بعد چین کے بیلٹ اینڈ روڈ قرضوں کا دوسرا بڑا وصول کنندہ ہے، نے نئی حکومت کے تحت 20 ارب ڈالر کے چینی ریلوے پراجیکٹ پر کام روک دیا ہے۔ برما بھی 10 ارب ڈالر کے چینی پورٹ پراجیکٹ پر دوبارہ مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے۔ نیپال نے نومبر کے بعد سے دو چینی ہائیڈرو الیکٹرک ڈیموں کے منصوبے روک دیے ہیں۔ چین کے ساتھ بات چیت میں شامل ایک سینئر پاکستانی اہلکار کا کہنا ہے کہ ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی یہ پیسہ واپس کیسے ہوگا؟‘‘ پاکستان چین سے بیل آؤٹ لینے کی کوشش کرسکتا ہے۔ چینیوں نے پہلے ہی ایمرجنسی فنڈ کی مد میں 3 ارب ڈالر کمرشل شرحِ سود پر دیے ہیں۔ چینی بیل آؤٹ سے اُن کا منصوبہ تو چلتا رہے گا، لیکن ایک پریشان کن مثال قائم ہوجائے گی۔ (بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے پیچھے) منطق یہ ہے کہ چینی بنکوں کو اس سے زیادہ منافع دلوائے جائیں جو وہ اپنے ملک میں حاصل کرسکتے ہیں اور چین کی اضافی صنعتی صلاحیت کو بیرونِ ملک بروئے کار لایا جائے، لیکن کچھ چینی بینکار اور حکام اب بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے مالیاتی خطرات کے بارے میں زیادہ پریشان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کو دی جانے والی تازہ رہنمائی میں چین کی ٹیکس انتظامیہ نے تنبیہ کی ہے کہ پاکستان کی قرضے واپس کرنے کی سکت انتہائی کم ہے۔ چینی قرضے واپس نہ کرسکنے والی سری لنکن حکومت نے "HANBANTOTA” کی بندرگاہ ایک چینی ریاستی کمپنی کو 99 سال کی لیز پر دے دی ہے۔ پاکستان کے معاملے پر چین اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کی ایک اہم وجہ یہی تناظر ہے کہ چینی قرضے واپس نہ کرنے کی صورت میں سری لنکا کی طرزپر گوادر یا تذویراتی طور پر کسی اور حساس مقام کوچین اپنے قبضے میں لیتا ہے، تو خطے میں امریکہ کی سفارتی اور سٹریٹجک زبوں حالی مزید گہری ہوجائے گی۔ خلیج فارس کے کلیدی راستے پر چینی بحریہ کی تنصیبات امریکہ کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوسکتی ہیں۔
یوں سب کچھ اتنا شفاف اور سیدھا نہیں جیسا کہ تاثر دیا جاتا ہے۔
چینی کمپنیوں کی لوٹ مار کی وجہ سے تازہ رپورٹوں کے مطابق سی پیک کے تحت لگائے جانے والے بجلی گھروں (جن سے ’’سستی‘‘ بجلی پیدا کرنے کا بہت شور تھا) سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت 40 فیصد زیادہ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سوائے سیمنٹ کے سارا میٹریل، مشینری اور زیادہ تر لیبر بھی چین سے آرہی ہے، ٹھیکے بھی چینی کمپنیوں کے پاس ہیں جو پھر ذیلی ٹھیکے مقامی کمپنیوں کو دیتی ہیں، جن سے یہاں کے سرمایہ داروں کی منافع خوری وابستہ ہے، جب کہ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ گوادر پورٹ کی 91 فیصد آمدن اگلے 40 سال کے لیے چین کو جائے گی جب کہ صرف 9 فیصد گوادر پورٹ اتھارٹی کے حصے میں آئے گی۔ کم و بیش ایسی ہی صورتحال دوسرے تعمیراتی منصوبوں کی ہے، جن میں چینی کمپنیاں کئی دہائیوں تک یہاں سے پیسہ کمائیں گی۔
سی پیک کے منصوبوں میں جو مقامی آبادی کو نوکریاں دی بھی گئی ہیں وہ کم اجرتی، دہاڑی دار اور غیر مستقل نوکریاں ہیں۔ بالفرض یہ سرکاری دعوے مان بھی لیے جائیں کہ ’’ایک لاکھ نوکریاں پیدا ہوئی ہیں اور آنے والے سالوں میں آٹھ لاکھ نوکریاں مزید پیدا ہوں گی‘‘، تو بھی یہ اونٹ کے منھ میں زیرے کے مترادف ہے، کیوں کہ پاکستان میں ہر سال 20 لاکھ نئے نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔