شاہنامۂ فردوسی کی تاریخی حیثیت

فردوسی کا شاہنامہ اگر چہ شعر و ادب کا ایک بڑا شاہکار ہے، لیکن تاریخ سے اس کو ذرا بھی تعلق نہیں ہے۔ کیوں کہ اس میں شاہوں کے جو تذکرے بیان کیے گئے ہیں، وہ سراسر دیو مالائی اور داستانی ہیں۔
محمودِ غزنوی نے فردوسی کو شاہنامہ لکھنے پر مامور کیا۔ کافی عرصے بعد جب فردوسی ’’شاہنامہ‘‘ لکھ کر لائے، تو روایت کے مطابق محمودِ غزنوی اپنے وعدے سے پھر گیا اور ایک اشرفی فی شعر کا جو معاوضہ طے ہوا تھا، اس کی جگہ فی شعر ایک درہم دے دیا۔ فردوسی کو اس پر اتنا غصہ آیا کہ وہ رقم جا کر حمام میں غریبوں کو بانٹ دی اور اپنے شہر کو چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد محمودِ غزنوی کو افسوس ہوا۔ چناں چہ اس نے فی شعر کے حساب سے رقم روانہ کی، لیکن یہ رقم لے کر جب اس کے آدمی شہر میں داخل ہورہے تھے، تو دوسرے دروازے سے فردوسی کا جنازہ نکل رہا تھا۔ کارپردازوں نے وہ رقم اُس کی بیٹی کے حوالے کی اور اُسی بیٹی کی شادی کے لیے فردوسی کو اس رقم کی ضرورت تھی، لیکن بیٹی بھی باپ جیسی نکلی۔ اُس نے اس رقم کو لے تو لیا، لیکن پوری رقم ایک مسافر خانے اور خانقاہ کی تعمیر پر لگا دی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ محمودِ غزنوی اپنے وعدے سے اس لیے مکر گیا تھا کہ فردوسی نے شاہانِ ایران کے بیان میں حد سے زیادہ مبالغہ کیا تھا اور اس میں عرب و عجم کی مخاصمت کو اُجاگر کرتے ہوئے عربوں کو بہت برا بھلا کہا تھا۔ یہ کسی حد تک درست بھی ہے۔ کیوں کہ فردوسی نے عربوں کو سوسمار اور صحرائی کیڑے مکوڑے کھانے والوں کے نام سے تضحیک کا نشانہ بنایا ہے، لیکن ان سب کے باوجود شاہنامہ کے ادبی شاہکار ہونے اور فردوسی کے عظیم الشان شاعر ہونے میں ذرا بھی کلام نہیں۔
شاہنامۂ فردوسی کو اپنی تمام تر عظمت کے باوجود تاریخ کے لیے بطورِ سند ٹھہرانا درست نہیں اور ہمارے آریائی نظریے کے حامیوں نے یہی غلطی کی ہے۔ انہوں نے اس میں درج ہونے والے بادشاہوں کو حقیقی مان لیا ہے۔ حالاں کہ انسان اور انسانی معاشرے کے ارتقائی منازل کو پیشِ نظر رکھا جائے، تو ایسے بادشاہوں کا وجود قطعی ناممکن ٹھہرتا ہے بلکہ اکثر تو افراد کو گروہ اور گروہوں کو افراد بتایا گیا ہے، جو سراسر غلط ہے۔ (سعد اللہ جان برقؔ کی کتاب “پشتون اور نسلیاتِ ہندو کُش” مطبوعہ “سانجھ پبلی کیشن” صفحہ نمبر 55 اور 56 سے انتخاب)