تاجروں کے لیے خاصے کی تحریر

کوئی بھی شخص کاروبار کس لیے کرتا ہے؟ تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رقم کما سکے اور پھر اس رقم کے ذریعے اپنے لیے سکون و راحت کے ذرائع خرید سکے، لیکن اگر بہت سا مال و دولت جمع کر کے بھی سکونِ خواب و خیال نہ رہے، تو اس مال کا کوئی فائدہ نہیں۔ دورِ حاضر کے اکثر تاجر بھائی اسی کیفیت کے شکار ہیں۔ کروڑوں کما کر بھی سکون نہیں ملتا۔ اس کی جہاں دیگر وجوہات ہیں، وہیں ایک وجہ وقت کا صحیح استعمال نہ کرنا بھی ہے۔ سکون کی تلاش میں سکون تج دیا جاتا ہے، نتیجہ صفر جمع صفر برابر صفر نکلتا ہے۔
ایک مسلمان کے لیے وقت یوں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی جگہ وقت کی قسم اٹھائی ہے۔ مثلاً الفجر، العصر، اللیل، الضحی وغیرہ یہ سب اوقات نہ صرف سورتوں کے نام ہیں بلکہ انہی الفاظ کے ساتھ قسم بھی موجود ہے۔ بخاری شریف میں نبی کریمؐ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ ’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں: صحت اور فراغت۔‘‘
آپ نبی کریمؐ وقت کی اہمیت بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو، تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لیے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے، تو وہ ضرور اسے لگا لے۔‘‘ (مسند احمد، رقم:۱۲۹۸۱)
نمازِ فجر کے بعد سونے بارے میں فرمایا: ’’صبح کے وقت سونا رزق میں کمی کا سبب ہے۔‘‘ (مسند احمد: ۵۳۰)
سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’میں ایک مرتبہ صبح کے وقت لیٹی ہوئی تھی کہ نبی کریمؐ میرے پاس سے گزرے، مجھے پاؤں مبارک کے ساتھ ہلایا اور فرمایا، اے بیٹی! کھڑی ہو جا اور اپنے رب کا رزق دیکھ، غافلین میں سے نہ بن۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا رزق طلوعِ فجر سے سورج نکلنے تک تقسیم فرماتے ہیں۔‘‘ (شعب الایمان، رقم:4405)
صخر الغامدی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا نقل فرماتے ہیں: ’’اے اللہ! میری امت کی صبح میں برکت نازل فرما۔‘‘ نیز فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریمؐ جب بھی کوئی لشکر روانہ فرماتے، تو اسے صبح کے وقت روانہ فرماتے۔‘‘
حضرت صخرؓ بذاتِ خود ایک تاجر تھے، چناں چہ اپنا مالِ تجارت ہمیشہ صبح صبح بھیجا کرتے۔ اس کی برکت سے اتنا مال کما لیا کہ انہیں سمجھ نہیں آتی تھی، کہاں خرچ کروں؟‘‘ (ابن ماجہ: رقم 15438)
پریشانی، تناؤ اور جذباتی کشمکش یہ وہ تین اسباب ہیں جو تھکن کا باعث بنتے ہیں۔ ان تینوں کا محرک وقت کا نا درست استعمال ہے۔ برطانیہ کے ممتاز نفسیات دان جے اے ہیڈ فیلڈ اپنی کتاب ’’قوت کی نفسیات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہم تھکن اپنے ذہنی رویوں کی بنا پر محسوس کرتے ہیں، خالص جسمانی تھکن کبھی نہیں ہوا کرتی۔‘‘ ظاہر سی بات ہے اگر ہم اپنے وقت کو پہلے سے ’’مینج‘‘ رکھیں، تو دماغ و جسم آنے والے مشکل سے مشکل کام کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔لہٰذا تھکاوٹ کا احساس کئی درجے کم ہو جاتا ہے۔
وقت کا خیال رکھنا ایک تاجر کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ کئی غیر اہم امور سرانجام دینے سے بچ جاتا ہے۔ گوئٹے لکھتا ہے: ’’اپنے اہم ترین امور کو غیر اہم امور پر قربان مت کیجیے۔‘‘ چناں چہ وہ صبح اٹھتے ہی روزانہ کے حساب سے اپنے اوقات کی تنظیم کرتا ہے۔ اپنی ڈائری میں تمام ضروری کاموں کی فہرست بناتا ہے اور پھر ان میں چھانٹ کر انتہائی اہم کام کو الگ کرتا ہے، پھر اس کے سرانجام دینے میں تن دہی سے لگ جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ مثلاً صبح بیدار ہوتے ہی اس کے ذہن میں آتا ہے کہ آج فلاں بندے کو اتنا قرض ادا کرنا ہے، فلاں جگہ سے مال اٹھانا ہے، اور فلاں دوست کے ساتھ میٹنگ کرنی ہے۔ گھر کا سودا سلف بھی خرید کر لانا ہے۔ ان سب کاموں کی فہرست بنا لینے کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ دوست کے ساتھ تجارت کے حوالے سے ملاقات سب سے اہم امر ہے۔ لہٰذا اسے سرِفہرست کر دیتا ہے۔ قرض واپس کرنے کے لیے وہ کسی قابل اعتماد ملازم یا کسی دوسرے دوست کی مدد حاصل کر سکتا ہے۔ مال وصول کرنے کے لیے بھی اسے تھوڑی دیر کے لیے جانا پڑے گا، باقی کام مزدور کر لیں گے۔ لہٰذا اب اس کے ذمے صرف دوست سے ملاقات ہے، جو اسے لازمی سرانجام دینی ہے۔ اگر وہ قرض ادا کرنے خود چلا گیا یا مال وصول کرنے چلا گیا، تو وہاں گاڑی کا انتظار اور دیگر چھوٹے چھوٹے کاموں میں سارا دن ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔
تھامس کارلائل لکھتا ہے: ’’جوانی میں دن مختصر ہوتے ہیں لیکن سال طویل، لیکن بڑھاپے میں سال مختصر ہوتے ہیں اور دن طویل۔‘‘ جوانی دیوانی کے نشے میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ دوستوں کے ساتھ گپ شپ، سوشل میڈیا کے جنگل میں مٹرگشت، ٹیلی وِژن پر سیاسی تبصرے سننا اور ویڈیوگیمز…… یہ ساری چیزیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہونے دیتیں۔ جب کاروبار میں پے در پے نقصانات ہونا شروع ہوتے ہیں، تب جا کر آنکھ کھلتی ہے، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ان ساری چیزوں کی اِفادیت سے انکار نہیں لیکن کچھ چیزیں بالکل فضول ہونے کی وجہ سے چھوڑ دینا بہتر ہیں، جیسے ویڈیو گیمز کھیلنا اور کچھ چیزیں وقت کی تنظیم چاہتی ہیں۔ مثلاً دوستوں کو وقت دینا، سوشل میڈیا کا استعمال وغیرہ۔ بعض لوگ کاروبار میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ دوستوں، عزیزوں، حتی کہ اپنے گھر والوں کو بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ صبح منھ اندھیرے گھر سے نکلتے ہیں اور رات گئے تک بازار میں ہی مصروف رہتے ہیں، جس سے ان کی نجی اور خانگی زندگی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ بچے بداخلاق اور بیوی نافرمان ہو جاتی ہے۔ اس لیے کاروبار کے ساتھ ساتھ ہر ایک کو اس کا مخصوص وقت دیں۔ ورنہ سید سلیمان ندویؒ کے بقول ’’زندگی کا بھی عجیب ڈھنگ ہے، جب کچھ باتیں قابو میں آنے لگتی ہیں اور حوصلہ ہوتا ہے کہ اب انہیں پیش کریں گے، تو رخصت ہونے کا پیغام آ جاتا ہے۔‘‘ اسی لیے روہن شرما کہتے ہیں: ’’وقت آپ کے ہاتھ سے ریت کی مانند پھسلتا جاتا ہے اور پھر کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ لہٰذا جو لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں اور اسے عقلمندی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ انہیں خوش حال، مثبت، تعمیری اور اطمینان بخش زندگیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘
بعض مفکرین کہتے ہیں: ’’ہر مہینے اپنے اہداف متعین کریں اور ایک مہینے میں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘ اس کے لیے پیشگی منصوبہ بندی نہایت ضروری ہے۔ تاکہ اس کے مطابق وقت کا استعمال کیا جا سکے کہ کس چیز کو کتنا وقت دیں گے، تو مطلوبہ ہدف حاصل ہوسکے گا؟ برائن ٹریسی اپنی کتاب ’’حصول مقاصد کے راز‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’کاروباری زندگی کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس وقت میں اپنے وقت کا صحیح استعمال کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘ جو اس سوال کو سمجھ گیا اور عمل کر لیا، تو کاروبار میں کامیابی محض دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ اس سوال پر غور کرنے والا یکسوئی حاصل کر لیتا ہے۔ مشہور مؤجد ٹامس ایلوا ایڈیسن کہتا ہے: ’’میری کامیابی کا راز یہ ہے کہ میں اپنا کام بغیر کسی دوسری طرف متوجہ ہوئے مسلسل انجام دیے جاتا ہوں۔‘‘ کامیابی کا یہی وہ نسخہ ہے جسے تلاش کرتے کرتے عمر بیت جاتی ہے، لیکن کامیابی ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا مصداق بنی رہتی ہے۔ اس سب کے باوجود اگر سستی ، بوریت یا کام ملتوی کرنے کا احساس پیدا ہونے لگے، تو اپنے آپ کو جلد از جلد کام مکمل کرنے کی ترغیب دیجیے۔ان شاء اللہ العزیز چند دنوں میں ہی یہ عادت ہو جائے گی اور اپنا کام وقت پر کرنے کی عادت پڑ جائے گی۔

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔