ایک جھپی جس نے دنیا بھر کے کروڑوں سکھوں کے دل جیت لیے، جو پچھلے اکہتر سال سے دن رات ان گوردواروں کے درشن کے لیے ارداس (دعائیں) کر رہے تھے۔ وہ گوردوارے جو بٹوارے کے وقت کچھ پاکستان اور کچھ ہندوستان میں رِہ گئے تھے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے دو ہزار اٹھارہ عیسوی کے الیکشن میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ ن کو شکست دی، اور تاریخ رقم کی۔ تحریکِ انصاف پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر حکمران جماعت بن کر ابھری، تو حلف برداری کے موقعہ پر جناب عمران خان صاحب نے اپنے پرانے کرکٹرز اور مختلف شعبوں سے وابستہ دوستوں کو اس تقریب میں مدعو کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھارت میں موجود اپنے کئی دوستوں کو دعوت بھیجی، پر سب دوستوں نے کسی نہ کسی مصروفیت کا بہانہ بناکر پاکستان آنے سے معذرت کی۔ پر ایک سردار تھا جس کو اپنے دوست کی یاری اور کامیابی پر جیسے ناز تھا، وہ تمام پابندیوں سے منھ موڑ کر آ ہی گیا۔ اسے ’’آر ایس ایس‘‘ اور ’’بجرنگ دل‘‘ جیسی تنگ نظر اور شرپسند تنظیموں کا خوف نہیں تھا۔ بس ا سے ایک آس تھی اور جیسے برسوں کی پیاس تھی کہ اپنے دوست کی کرکٹ کے بعد سیاست میں بھی کامیابی دیکھے۔ آخرِکار سترہ اگست کو ایک لمبے قد کا مالک جو نیلے سوٹ میں ملبوث تھا، سر پر گلابی رنگ کی دستار سجائے مسکراتے چہرے کے ساتھ واہگہ باڈر کے ذریعے پاکستان کی سرحد میں داخل ہوا۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ بھارت کے ماضی کے معروف کرکٹر اور آج کے ہندوستانی نیتا نوجوت سنگھ سدھو پاجی تھے۔
پاجی نے آتے ہی اپنے روایتی انداز میں کچھ اشعار بھی ارشاد فرمائے۔ اگلے روز سدھو پاجی دوسرے مہمانوں کے ساتھ وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شامل ہوئے، تو پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جھپی ڈالے بغیر نہ رہ پائے۔ جنرل باجوہ نے سدھو سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیوں نہ بابا گورونانک دیو جی کے پانچ سو پچاس سالہ جنم دن پر ہم دونوں ممالک سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور کی سرحد کھول دیں؟‘‘ پھر کیا تھا، سدھو پاجی تو پھولے نہ سمائے۔ اکہتر سال سے ہر سکھ کی زبان پر دن رات ایک ہی ’’ارداس‘‘ (دعا) رہتی ہے،جن تاریخی گوردواروں سے وہ الگ ہوئے، انہیں ان کا دیدار نصیب ہو۔

سدھو پاجی پاکستان کی سرحد پر امن کے پیغام کے ساتھ قدم رکھتے ہوئے۔ 

کرتار پور صاحب کا گوردوارہ اور یہ علاقہ سکھوں کے لیے کیوں اتنی اہمیت کا حامل ہے اور اسے اتنا مقدص کیوں سمجھا جاتا ہے؟ اس بارے بتاتا چلوں کہ کرتارکا مطلب ہے ’’کرتا دھرتا‘‘ یعنی اس کائنات کا خالق۔ اس شہر کو بابا گورونا نک جی نے خود پندرہ سو پندرہ عیسوی میں بسایا اور یہی وہ شہر ،وہ جگہ ہے جہاں سکھ مذہب کی پہلی عبادت گاہ جسے ’’گوردوارہ‘‘ کہا جاتا ہے، کی بنیاد بھی بابا گورونانک دیو جی نے پندرو سو اکیس عیسوی میں اپنے مبارک ہاتھوں سے ڈالی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں بابا جی نے اپنے بعد سکھوں کے دوسرے گورو انگد دیو جی کو گور گدی سونپی۔ اسی مقام پر بابا جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام یعنی آخری اٹھارہ سال گزارے اور یہی سے رخصت ہوئے۔
ویسے بھی اگر دیکھا جائے، تو سکھوں کا ستّر فیصد سے زائد ’’ہیرٹیج‘‘ پاکستان میں ہے۔ گذشتہ روز وزیر عظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کی بنیاد رکھی، تو پوری دنیا میں بسنے والوں سکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہر طرف سے وزیر اعظم عمران خان زندہ باد اور سکھ مسلم دوستی کے نعرے بلند ہوئے۔ عمران خان نے ایسی گیند بازی کی کہ جس سے بھارت سمیت دنیا بھر کے سکھوں کے دل جیت لیے۔ اس اعلان سے سکھ قوم اتنا خوش ہوئی کہ انگلینڈ میں بسنے والے سکھوں نے توپاکستان کو یہ آفر بھی کرڈالی کہ اگر پاکستان کی حکومت، ڈیم کا نام بابا گورونانک جی کے نام پر رکھے، تو ان کی طرف سے ڈیم بنانے کے لیے درکار رقم مہیا کی جائے گی۔
دوسری جانب بھارت کو بھی یہ معاہدہ کرنے کے لیے بادلِ نخواستہ راضی ہونا پڑا۔ ا ب اس سے اور بڑی کامیابی وزیر اعظم کے لیے اورکیا ہوسکتی ہے کہ بھارت جو اس خطے میں آج کل اپنے آپ کو ایک ’’ڈان‘‘ سے کم نہیں سمجھتا، لاکھ کوششوں کے باوجود وہ اس معاہدے سے منھ موڑنا چاہتا تھا، پر خان صاحب کی جانب سے پھینکے گئے باؤنسرز کے سامنے بھارت نیتا کے لیے وکٹوں پر کھڑے رہنا مشکل ہوگیا، مجبوراً پاک دھرتی پے نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کو اپنے کچھ وزرا بھیجنا پڑے۔
قارئین، مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب سدھو پاجی پہلی بار پاکستان آئے۔ یہاں آکر ان کی پہلی جھپی جو انہوں نے جنرل صاحب کو ڈالی، تو پورے بھارت میں جیسے آگ بھڑک اٹھی۔ ہندوستانی میڈیا چیخیں مار مار کر تھکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ دوسری جانب آر ایس ایس، شیو سینا اور بجرنگ دل جیسی انتہا پسند تنظیموں نے تو سدھو پاجی کے سر پر انعام ہی رکھ دیا۔ جگہ جگہ دیش دروہی کے نعرے بلند ہوتے رہے۔ پر یہ سردار اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا۔ ان انتہا پسند ہندوؤں کے سامنے وہ بِلا جھجھک ہر طرف یہی کہتا رہا کہ ’’نفرتوں، جنگوں اور فسادوں سے آج تک کسی کو کیا ملا ہے؟ آج وہ ملک اور ان ممالک کے لوگ خوشحال کی زندگی بستر کر رہے ہیں، جن کے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ ‘‘آج یقینا فتح اسی کی ہوئی۔
پاکستان مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ صدیوں سے آباد ہیں اور ہزاروں سال پرانے تاریخی مقامات بھی اس پاک دھرتی کا حصہ ہیں۔ آج جس نازک دور سے ملک عظیم گزر رہا ہے،اس کومدنظر رکھتے ہوئے میری تجویز ہے کہ گندھارا تہذیب، ہندو شاہی دور، کٹاس راج سے لے کر رام تخت تک سب کچھ یہاں موجود ہے، اگر حکومت پاکستان چاہے، تو ’’ریلیجیس ٹوورز‘‘ سے لاکھوں اربوں روپے کمائے جاسکتے ہیں۔یوں ملکی معاملات چلانے میں بھی آسانی ہوجائے گی، اور دنیا بھر میں امن کا پیغام جائے گا۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔