عمران خان کی جانب سے تین ماہ پہلے اپنے ہندوستانی دوست ’’نوجوت سنگھ‘‘ پا جی کے ساتھ کیا گیا وعدہ بالآخر پورا ہوا۔ ہندوستان سرحد پر کرتارپور راہداری کا افتتاح کر دیا گیا۔ تقریب میں وزیراعظم پاکستان عمران خان، آرمی چیف جنر ل قمر جاوید باجوہ اور وفاقی زرا سمیت ہندوستان سے سدھو کی قیادت میں بھارت کے وزرا اور چند صحافی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اس پورے عمل کو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ بیرونی دنیا میں بھی کافی سراہا گیا۔ اسے اب خطے میں امن کی طر ف بڑا قدم سمجھاجاتا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور نوجوت سنگھ کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے۔

خطے میں کسی بھی ہمسایہ ملک کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں جس کی وجہ سے یہاں معیشت، سماجی وسیاسی تعلقات اور ثقافتی شعبے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان، ہندوستان اور افغانستان اُن ممالک میں شامل ہیں جن کے عوام کے درمیان ایک نہیں بلکہ کئی قدر مشترک ہیں، جن کی بنیادپر تعلقات میں تناؤ کی کمی ممکن ہے اور دنیا کو بھی ایک پُرامن ماحول مہیا کیا جاسکتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پچھلے 70 سال میں مختلف فورمزپر عوام کو جوڑنے اور امن قائم رکھنے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں، لیکن تاحال اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ پاکستان کو جنوبی ایشیا میں کئی لحاظ سے ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ خواہ وہ وسطی اور جنوبی ایشیا کو ملانے والا راستہ ہو یا ایشیا کو بحیرۂ عرب کے ساتھ سمندر کے ذریعہ ملانا ہو۔ اس کے علاوہ گرد و پیش میں عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں میں بھی پاکستان کا ایک کلیدی کردار ہے، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہماری بعض ناکام پالیسیوں اور خطے میں جاری دہشت گردی کی لہر نے دنیا بھر میں ہماری پوزیشن کو کافی کمزور کر دیا ہے۔ چین سمیت کئی ممالک کے ساتھ تعلقات ضرورت اور مجبوری کے تحت قائم ہیں۔ پاکستان کے ساتھ امن قائم رکھنے اور ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے کئی اہم ’’کارڈز‘‘ ہیں، لیکن موجود ہ وقت میں سب سے زیادہ اہم چیزمذہب ہے۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے جس کی بنیاد پر نہ صرف ایک دو بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو جوڑا جاسکتا ہے۔
پاکستان نہ صر ف خطے میں آباد مسلمانوں کے لیے ہر لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے بلکہ ہندوؤں، سکھ اور بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے بھی یہاں بڑی تعداد میں مقدس مقامات موجود ہیں جو یہاں پر آکر اپنے ساتھ دنیا کے لیے ایک مثبت پیغام لے کر جائیں، لیکن بدقسمتی سے ہم پچھلے 18 سالو ں سے جنگی صورتحال کی بنیادپربیرونی دنیا سے تو دور اندورنِ ملک ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانا مشکل ہو گیا تھا۔ تاہم اب پہلے کی نسبت حالت میں بہتری آئی ہے۔ اس پر بھی غیر یقینی صورتحال کے بادل منڈلا رہے ہیں، جس کو مکمل ختم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک دیو جی کا جنم اور وصال بھی پاکستان میں ہوا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف خطہ میں آباد سکھ مت کی ماننے والی کروڑوں کی آبادی کے لیے پاکستان انتہائی اہمیت رکھتا ہے بلکہ امریکہ ، کینڈا، یورپی ممالک اور افغانستان میں سکھوں کی بڑی تعداد بھی ہمارے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ شاید بابا گرونانک دنیا میں وہ واحد مذہبی شخصیت ہیں جو اپنی تعلیمات کی وجہ سے سکھوں کے علاوہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں بھی یکساں مقبول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جنم دن کی تقریبات میں تینوں مذاہب کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ پہلی بار افغانستان سے گروپ کی شکل میں 170 یاتریوں نے بھی ان تقریبات میں شرکت کی ہے۔پہلے وقتوں میں اس قسم کی کوئی اچھا مثال موجود نہیں۔
باباگروناک کی تقریبات میں پہلی دفعہ افغان یاتریوں کی شرکت سکھ مذہب کے بانی بابا گور نانک کے 549ویں جنم دن کی سہ روزہ تقریبات پنجاب کے ضلع ننکانہ میں اختتام پذیر ہوچکی ہیں، جن میں ملک بھر سمیت ہندوستان، امریکہ، برطانیہ، کینڈا اور یورپی ممالک سے 25 ہزارسے زیادہ سکھ یاتریوں نے شرکت کی۔ جن میں پہلی بار ہمسایہ ملک افغانستا ن سے 170 سکھ یاتری قافلہ کی شکل میں پاکستان پہنچے اور تقریبات میں شرکت کی۔ طور خم سرحد پر پاکستانی حکام اور مقامی سکھ رہنماؤں نے مہمانوں کا استقبال کیا اور پھولوں کے ہاربھی پہنائے۔

نوجوت سنگھ پڑوسی ملک سے آئے ہوئے سکھوں کے ساتھ پراتنا میں مصروف ہیں۔

مان سنگھ بھی اُن سکھ یاتروں میں شامل ہیں جو افغانستان سے طورخم سرحدی راستے سے پاکستان آئے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ سرحد پر پاکستان کے سکیورٹی حکام نے بہترین انتظامات کیے تھے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سخت سیکورٹی میں پشاور میں قائم ’’گوردوارہ بھائی جونگ شاہ‘‘ پہنچ گئے تھے، جب کہ تمام مہمانوں کی بہترین قسم کی مہمان نوازی بھی کی گئی تھی۔
قارئین، افغانستان سے سکھ یاتروں کا قافلہ 19 نومبرکو پشاور اور اگلے روز ننکانہ صاحب پہنچ گیا، جس کے تمام تر انتظامات پشاور کی سکھ برادری، سکھ پربندر کمیٹی اور متروکہ وقف بورڈ املاک ٹرسٹ بورڈ نے کیے تھے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سکھ رہنما ’’بابا جی گورپال سنگھ‘‘ نے اس حوالہ سے مؤقف اپنا یا کہ پاکستان کو یہ شرف حاصل ہے کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گورنانک نے جنم بھی یہاں لیا تھا اور یہاں گزرے بھی تھے۔ہرسال ہزاروں کی تعداد میں سکھ یاتری دنیا بھر سے آکر اپنے ساتھ امن و سلامتی کا پیغام لے کر جاتے ہیں۔ اُن کے بقول، ’’خیبر پختونخوا میں کئی تاریخی گوردوارے موجود ہیں لیکن بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سکھ یاتریوں کو پنجاب سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ننکانہ صاحب کے قریب سات گوردواروں میں زیارت کے لیے ان مہمانوں کو لے جایا جاتا ہے۔ محکمۂ اوقاف و مذہبی امور اور محکمۂ ثقافت کو چاہیے کہ ان یاتریوں کایہاں خیبر پختونخوا اورخصوصاً پشاور میں دو تاریخی گوردواروں ’’بھائی جوگن شاہ‘‘ اور ’’بھائی بے با سنگھ‘‘ تک لانے اوراُن کو تحفظ دینے کے لیے مؤثر انتظام کرے، جس سے نہ صرف ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا، بلکہ اس سے ہماری معیشت پر مثبت اثرات پڑنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی امن کا ایک مثبت پیغا م جائے گا۔‘‘
افغانستا ن سے آئے ہوئے ایک سکھ یاتری نے اس موقع پر کہا کہ پہلے وہ دو یا تین بندوں کی شکل میں ایک گروپ بن کر آتے تھے، لیکن پہلی دفعہ کابل میں پاکستان کے سفارتی عملے نے وہاں کی سکھ برادری پربڑا احسان کیا ہے کہ کئی ویزے جاری کیے ہیں، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں سکھ برادری کے لوگوں کواپنی سب سے بڑی مذہبی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ یوں پوری دنیا میں پاکستان کے حوالہ سے ایک اچھا پیغام گیا۔
پشاور کے سکھ سیاسی رہنما رادیش سنگھ نے کہا کہ پاکستان میں سکھ برادری کی بڑی تعداد قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا میں آباد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بابا گرونانک کے جنم دن کی تقریبات میں ان علاقوں کے زیادہ لوگ شرکت کرتے ہیں،جہاں پرلنگراورمختلف سٹال لگانے سمیت بیرونی دنیا سے آئے ہوئے مہمانوں کی خدمت میں یہی لوگ پیش پیش ہوتے ہیں۔
رادیش سنگھ نے پاکستانی حکام کے اس اقدام کی تعریف کی کہ پہلی دفعہ افغانستان سے 170 سکھ یاتریوں کو بروقت ویزہ جاری کرنے کے ساتھ سرحد پر بھی بہترانتظامات کیے گئے تھے۔
گورنانک کی جنم دن کی تقریبات میں نہ صرف سکھ بلکہ مسلمان اور ہندو برادری کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔
میڈیا رپوٹس کے مطابق ہندوستان سے تین ہزار سے زائد سکھ یاتری ریل کے ذریعہ واہگہ کے راستے پاکستان آئے تھے ۔ پاکستان میں سکھ رہنماؤں کے مطابق بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سکھ یاتروں کی ننکانہ صاحب میں رہائش کا بند وبست کیاگیا ہے۔ ان کے ویزے صرف پنجاب تک محدود ہونے کی وجہ سے ننکانہ صاحب کے قریب تاریخی گوردواروں کی زیارت انہیں کرائی جاتی ہے ۔
تحقیق کے مطابق سکھ مذہب کے بانی گرونانک صاحب 15 اپریل 1469ء کو ننکانہ صاحب میں پیداہوئے۔ 22 ستمبر 1539ء میں کرتار پور میں گزرنے کے بعد سکھ مذہب کے پیروکاروں نے ان کی آخری رسومات اداکی تھیں۔

کرتارپور گردوارہ کی تصویر۔

باباگرونانک کی جائے وفات گردوارہ کرتارپور ہے۔ یہ ہندوستان اور پاکستان کی سرحد ہے، جو لاہور سے 130 کلومیڑ دور ضلع نارووال کی حدود میں واقع ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے طویل سلسلے کی وجہ سے ہندوستان میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کے لیے پچھلے سات دہائیوں سے گوردوارہ کو سرحد پار سے آنے والا راستہ بند ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر اسے کھولنا چاہتے ہیں، جس سے ہندوستان میں آباد کروڑوں کی تعداد میں سکھ برادری کی ایک بارپھر اُمیدیں جاگ گئی ہیں۔ وزیر اعظم کی حلف برادری کی تقریب میں بھارت کے سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھونے شرکت کرکے نہ صرف پاکستانیوں کو ایک مثبت پیغام دیا بلکہ اُنہوں نے اپنے ہی ملک میں بڑی تنقید کے باجود بھی ڈٹ کر دونوں ممالک کے درمیان امن کے فروغ کے لیے بات کی۔ اس حوالہ سے انہوں نے مؤقف اپنا یا کہ پاکستان کی امن کی پیش کش کا مثبت جواب دیا جائے۔ وہا ں کے امن مخالفین نے ٹی وی اور خبارات کے ذریعے سدھو کی آواز کو کمزور کرنے کے لیے ناکام کوششیں کیں، جو کہ کروڑوں لوگوں کے لیے محفوظ زندگی اور ترقی کا خواب دکھا ئی دیتی ہے۔اس طر ح دہلی کے حکمرانوں نے چند دن پہلے اعلان کیا کہ انڈین کا بینہ نے یاتریوں کے لیے پاکستانی سرحد تک راہداری کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ کابینہ نے سرحد کے نزدیک پاکستانی علاقے میں واقع گرودوارہ دربار صاحب تک ہندوستان کے یاتریوں کو رسائی دینے کے لیے خصوصی کوریڈور تعمیر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
پاکستان نے ہندوستانی کابینہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ قدم دونوں ممالک کے لیے امن کے خواہشمندحلقوں کی جیت ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم رواں ماہ ہی کرتاپور میں راہداری کے حوالے سے کام کا افتتاح کریں گے۔
پاکستان کی جانب سے ہندوستان کو 2019ء میں ہونے والے باباگرونانک کی جنم دن کی تقریبات کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے کے فیصلے سے آگاہ کیا جا چکا ہے۔
انڈین بارڈر سیکورٹی فورس نے سرحد پرایک ’’درشن استھل‘‘ قائم کررکھا ہے جہاں سے وہ دور بین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کرتے ہیں۔
1947ء میں بٹوارے کے وقت گردو ارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا تھا، لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث ایک لمبے عرصے تک یہ بند رہا۔ تقریباً اٹھار ہ برس قبل کرتار پور گردوارہ کھول دیا گیا، تو ہندوستان میں بسنے والی سکھ برادری کے تقریباًدو کروڑ افراد کو یہاں آنے کا ویزہ نہیں ملتا تھا، جب کہ دونوں ممالک کے درمیان موجود معاہدے کے تحت بابا گرونانک کی جنم دن کی تقریبات میں شریک ساڑھے تین ہزار سے زیادہ سکھ یاتری جو صرف ہندوستان سے آتے، اُن میں صرف چند سو کو کرتارپور جانے کا ویزہ جاری ہوتا ہے۔
کرتارپورمیں واقع ڈیرہ بابا گرونانک راہداری کے حوالے پہلی بار 1998ء میں ہندوستان اور پاکستان کے حوالے سے مشاورت کی گئی تھی۔ اب 20برس کے بعد دوبارہ یہ خبروں کا موضوع بنا ہے۔
تقریباً ایک سال بعد یعنی سال2019ء میں میں بابا گرونانک کی جنم دن کی تقریبات میں پوری دنیا سمیت سکھ یاتریو ں کے زیادہ سے زیادہ شرکت کے لیے انتظامات اور کرتار پور راہداری کے ذریعے یاتریوں کی آمد کے لیے مناسب بندوبست ہونا چاہیے۔ اس پورے عمل کے نتیجے میں خطے میں درپیش امن کے مسائل کے حل میں کافی مد د ملے گی۔پاکستان میں بسنے والے سکھ مذہب کے پیروکاروں کے علاوہ مسلمان، ہندو اور مسیحی برداری کے افراد بھی بابا گرونانک کو انسانیت کے لیے بہت بڑے نام کے طور پر جانتے ہیں۔ اگر دونوں طرف سے گرمجوشی کا اظہار کیا گیا، تو اسے دیرپاامن کے لیے پہلی سیڑھی سمجھا جائے گا۔

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔