سو دن حکومت کو پرکھنے کے لیے ناکافی ہیں

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہوجائیں، تو شرمندہ نہ ہوں
کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت پاکستانی سیاست کی ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کے بعض رہنما اکثر اوقات اپنے بیانات میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ تو پھر اُنہیں چاہیے کہ بیانات میں میانہ روی اختیار کریں۔ بہرحال 100 روزہ پلان کا دیا ہوا وقت مکمل ہوچکا۔ اب ان 100 دنوں میں وزیراعظم نے کیا کیا کام کرنے تھے اور کیا نہیں؟ اس حوالے سے بہت کچھ کہا جارہا ہے اور راقم تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ ’’نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔‘‘
قارئین، صد روزہ پلان پر کچھ روز بحث جاری رہے گی اور پھر جس طرح میئر کراچی نے 100 روزہ لائحہ عمل دیا تھا، وہ بھی کسی کو یاد نہیں رہا کہ اُن کے 100 روزہ پلان میں کون سے دعوے پورے اور کون سے ادھورے رہے۔ اگر میں کہوں کہ 100 دنوں میں کچھ نہیں کیا، تو بتائیں کیا کرلیں گے؟ کیا حکومت کا تختہ الٹیں گے، کیا مظاہرے، دھرنے، بھوک ہڑتال، سول نافرمانی کریں گے؟ آخر کیا کرسکتے ہیں!
سو دنوں میں موجودہ حکومت نے وہ کچھ کیا ہے، جو قیامِ پاکستان سے آج تک بننے والی کسی حکومت نے بھی نہیں کیا۔ کیا کسی سابق حکمران نے وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں فروخت کیں؟ نہیں ناں……! تو موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ وزیراعظم ہاؤس کی بھینسوں کی فروخت کا ہے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بھینسوں کی فروخت کا مقصد یہی تھا کہ ’’بھینس رہے گی اور نہ اس کے آگے بین بجائیں گے‘‘، تو پھر بھینس کے آگے بین بجانے کا عمل ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟
سب کہتے ہیں کہ نئی حکومت ہے، پہلی بار اقتدار میں آئی ہے، مشکلات کا پہاڑ ان کے سر پر قرض کی صورت رکھ دیا گیا تھا، مملکت کو چلانے کے لیے زرِمبادلہ کی اشد ضرورت تھی۔ اس لیے بہ امرِ مجبوری انہیں تین مہینے میں چھے غیر ملکی دورے کرنا پڑے۔ سعودی عرب کے دورے کے بعد تو وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب بھی کرڈالا اور قرض ملنے پر جس قدر خوشی کا اظہار کیا کہ اس کے لیے میرے پاس بھی الفاظ نہیں بچے۔ راقم نے تو یہ فیصلہ پہلے ہی کرلیا تھا کہ جب سے وزیراعظم نے ’’یوٹرن‘‘ کی تشریح بیان فرمائی ہے، اس کے بعد کسی قسم کا جواز ہی نہیں رہتا کہ کوئی تنقید کی جائے، کیوں کہ اُن کے ہر عمل میں ’’مَیں‘‘ ہے اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، وہ سب ’’ٹھیک‘‘ ہے۔ خوش فہمی میں مبتلا تو صرف ہم عوام ہیں، جو ہر مرتبہ یقین کرلیتے ہیں کہ ’’تبدیلی‘‘ آگئی ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، گذشتہ دنوں میں نے ایک خبر پڑھی، جس کے مطابق ایک لڑکی نے عدالت میں درخواست دی کہ اسے ’’جنس‘‘ بدلنے کی اجازت دی جائے۔ کیوں کہ اس کے گھر میں کوئی مرد کفیل نہیں۔ لہٰذا وہ جنس بدل کر اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کمانا چاہتی ہے۔ یہ خبر پڑھتے ہی دل پر چھری سی چل گئی کہ کیا ہمارا معاشرہ اس قدر گر چکا کہ کوئی خاتون، اپنی صنف کے ساتھ باعزت روٹی تک نہیں کماسکتی اور جنس بدلنے پر مجبور ہو رہی ہے تو پھر دریا کنارے پیاسے کتے کے مرنے کا جواب کون دے گا؟ یقینا کوئی ایسا تکلیف دہ مسئلہ ہوگا جو اُس لڑکی کو عدالت لے گیا۔ بقولِ شاعر:
دھواں جو کچھ گھروں سے اُٹھ رہا ہے
نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا
سچ کہتے ہیں کہ انگریز چلے گئے لیکن نشانی چھوڑ گئے۔ کراچی ایمپریس مارکیٹ کی تاریخی عمارت کے گرد و نواح میں تجاوزات کے خاتمے کے بعد بہت سے لوگوں کو خوشی ہے کہ علاقہ صاف ہوگیا، ٹریفک کی روانی ہوگئی، ڈی ایچ اے اور کلفٹن جیسے پوش علاقوں میں جانے والوں کو اَب ٹریفک جام کی کوفت نہیں ہوتی۔ پھر اس کے ساتھ پورے شہر میں تجاوزات کے خلاف جو مہم چلی، تو کے ایم سی، کے ڈی اے اور محکمۂ بلدیات نے ڈمپر، لوڈر ہر اُس روزگار کے اوپر اس طرح چلا دیے کہ جیسے بحرِظلمات میں کشتیاں چلتی ہوں:
لطف مرنے میں ہے باقی، نہ مزا جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں
سچ بات یہ کہ تحریک انصاف نے جو بھی ایجنڈا دیا اور قبل از وقت انتخابات جو بھی شیڈو گورنمنٹ بنائی تھی، اس کی عملی کارکردگی کو 100 روز میں نہیں پرکھا جاسکتا۔ پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتوں میں آمریت ہو یا جمہوریت، کوئی بھی ایسی نہیں جو 100 دن میں انقلاب لے آئی ہو۔ دنیا کی کوئی بھی نومنتخب حکومت ہو، اپنی سمت متعین کرنے کے لیے ابتدائی 100 دنوں کی منصوبہ بندی کرتی اور اس کے نتائج کو سامنے رکھ کر باقی ماندہ مدت تک عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف اس وقت اپنی حکومت گرنے کے خوف میں مبتلا ہے۔ کیوں کہ اس کے پاس واضح اکثریت نہیں۔ عمران خان کی پوری حکومت چھوٹے چھوٹے اتحادیوں کے کندھوں پر قائم ہے۔ ایک اتحادی بھی ادھر اُدھر ہوا، تو پوری حکومت گرنے میں وقت نہیں لگے گا۔ پاکستان میں اربوں روپے اخراجات کے بعد انتخابات کرائے جاتے ہیں۔ اس لیے نئے تجربے کی ناکامی کے بعد دوبارہ اربوں کے اخراجات کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس بات کی حمایت بھی ہم نہیں کریں گے کہ کوئی بھی اپوزیشن یا اتحادی جماعت موجودہ حکومت کو گرانے کی کوشش کرے۔ شاید وزیراعظم سمجھتے تھے کہ ان کی شخصیت ایسی ہے، وہ دنیا بھر میں جسے کہیں گے، وہ اُن کی بات من و عن تسلیم کرنے کو تیار ہوگا، لیکن اب انہیں اس کا ضرور اندازہ ہی نہیں یقین بھی ہوگیا ہوگا کہ 100دنوں کے لائحہ عمل میں ان کو جو توقعات تھیں، وہ پوری نہیں ہوسکیں۔ اے کاش، خان صاحب جانتے کہ
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
وزیراعظم نے اگر کچھ کرنا ہے، تو نئے پاکستان نہیں بلکہ قائداعظمؒ کے فرمودات کے مطابق پرانے پاکستان کے لے کر کریں۔ پاکستان اِن شاء اللہ ایک ہی رہے گا۔ قائداعظمؒ نے جس پاکستان کی بنیاد رکھی تھی، اُس کے خلاف آج بھی سازشیں ہو رہی ہیں۔ آپ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’امن کو ایک موقع اور دو۔‘‘ یہاں آپ کے پاس 100 کے بعد 1725 دن اور ہیں، لیکن خدارا، یقین کرلیں کہ اب آپ کو مسندِ اقتدار مل چکی ہے۔ عوام کس طرح یقین دلائیں کہ آپ کو 100دن نہیں بلکہ 5 برس کے لیے حکومت مل چکی ہے۔
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔