ملم جبّہ سوات کے سیاحتی مراکز میں منفرد خصوصیات کی حامل ایک جدید تفریح گاہ ہے۔ یہ پُرکشش اور قابلِ دید علاقہ دل کشی اور شادابی کا حسین مرقع ہے۔ ملم جبہ سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے شمال مشرق کی طرف 42 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ منگلور پُل کے قریب اس کا راستہ مدین، بحرین کے راستے سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس کی مضبوط اور پختہ سڑک میں داخل ہوتے ہی انسان کو ایک خوش گوار کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی سڑک کے ایک طرف سرسبز پہاڑ، درخت اور دوسری جانب ایک چھوٹی سی ندی بہتی ہے جس میں پڑے ہوئے بڑے بڑے دیو ہیکل پتھر جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ اس ندی کا ماخذ گڈ اور جبہ نامی قدرتی چشمے ہیں۔ یہ ندی ملم جبہ کے قریب ’’سپینہ اُوبہ‘‘ نامی مقام سے شروع ہوکر سڑک کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئی منگلور گاؤں کے قریب دریائے سوات میں شامل ہو جاتی ہے۔
ملم جبہ جاتے ہوئے راستے میں جہان آباد، تلیگرام، سیر، کشورہ، سپینہ اوبہ، گناجیر، کُو، ملم اور جبہ جیسے علاقے آتے ہیں۔ ان میں تلیگرام ایک تاریخی جگہ ہے جس کے قرب و جوار میں بہت سے قدیم آثار پائے جاتے ہیں۔ یہاں سڑک کے عین سامنے ننگریال نامی بلند و بالا پہاڑ پر وسیع علاقے میں آثار قدیمہ پھیلے ہوئے ہیں جو بدھ مت کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں اور آثارِ قدیمہ سے شغف رکھنے والے سیاحوں کی دلچسپی اور لطف اندوزی کا ایک بہت دلچسپ ذریعہ ہیں۔

برف کی سفید چادر اوڑھے وادئی ملم جبہ کا ایک سحر انگیز منظر (photo: concordia trackers)

ملم جبہ دو علاحدہ الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ملم اور جبہ، ملم الگ علاقہ اور جبہ الگ ہے لیکن دونوں علاقے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اس لیے دونوں کو یک جا ملم جبہ بولا جاتا ہے۔ ملم جبہ مری کی طرح پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ سطحِ سمندر سے اس کی بلندی 9500 فٹ ہے اور اس کا رقبہ 250 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ گاڑی میں ملم جبہ کی طرف اُوپر چڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے انسان آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو۔ سیر نامی گاؤں سے آگے ساری سڑک پُرپیچ، دشوار گزار اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ سڑک کے نیچے بڑی بڑی گھاٹیاں مُنھ کھولے کھڑی ہیں، لیکن یہ گہری گھاٹیاں دیکھ کر انسان کو خوف اور گھبراہٹ کی بہ جائے خوش گواری اور لطف کا احساس ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر مسلسل چڑھائی زیادہ دشوار گزار، طویل اور تھکا دینے والے سفر کی وجہ سے بوریت اور اُکتاہٹ کا احساس بھی ہوتا ہے، تاہم ملم جبہ کے قریب پہنچتے ہی ٹھنڈی ٹھنڈی مدہوش کن اور مُعطّر ہوائیں سیاحوں کا استقبال کرتی ہیں۔ ملم جبہ کی سڑک بہت پختہ اور مضبوط ہے لیکن کہیں کہیں اس کے تنگ ہونے کا احساس شدت سے ہوتا ہے، اس لیے ڈرائیونگ میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے۔ حکومت اگر یہ سڑک کشادہ کر دے، تو اس طرح ملم جبہ کی سیاحتی اِفادیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
ملم جبہ دسمبر سے ماہِ مارچ تک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ اس عرصہ میں یہاں 12 سے 16 فٹ تک برف پڑتی ہے۔ ہلکی برف باری اپریل کے مہینے تک جاری رہتی ہے۔ یہاں کا درجۂ حرارت سردیوں میں منفی 5 سے 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جب کہ موسم گرما میں درجۂ حرارت 10 سے 25 ڈگری رہتا ہے۔
ملم جبہ سرسبز پہاڑوں اور دلکش مناظر کی وجہ سے خوبصورت اور پُرفضا مقام ہے۔ گرمیوں میں یہاں موسم بہت خوشگوار اور قدرے سرد ہوتا ہے، لیکن یہاں فراواں پانی کی قلت بہت محسوس ہوتی ہے، جس کے باعث ملم جبہ کا حُسن دریا اور آبشار نہ ہونے کی وجہ سے مزید نکھرنے سے رہ گیا ہے، تاہم پہاڑوں پر پڑی ہوئی برف کے پگھلنے سے چھوٹے چھوٹے نالوں کے ذریعے صاف و شفاف پانی نشیب کی طرف بہتا ہے جس سے سیاحوں کی پانی کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ پہاڑوں کے اوپر اور پہاڑوں کے دامن میں جگہ جگہ میٹھے پانی کے گن گناتے چشمے موجود ہیں لیکن ان تک رسائی ذرا مشکل ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں قریب پڑی ہوئی برف سیاحوں کی دلچسپی اور لطف اندوزی کا ایک بہت دلچسپ ذریعہ ہے۔ سیاح پہاڑ پر چڑھ کر بہت آسانی سے برف تک پہنچ سکتے ہیں اور قدرت کا یہ اَنمول تحفہ اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ قدرتی برف کھاتے ہوئے بہت لطف محسوس ہوتا ہے اور خاص کر جب اسے گلاس میں ڈال کر اس کے ساتھ دودھ اور گُڑ یا چینی ملا کر کھایا جائے، تو اس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
ملم جبہ کے قرب و جوار میں جنگلات وسیع قطعۂ اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ عجیب طرح کے خوبصورت پھول کھلے ہوئے ہیں۔ ملم جبہ مجموعی طور پر اوپر تلے ڈھلانوں پر مشتمل ہے جس میں جگہ جگہ سیاحوں کے لئے پکنک منانے کے لیے قدرتی ہموار چمن زار بنے ہوئے ہیں۔

ملم جبہ سکینگ کے لیے پاکستان کے بہترین مقامات میں سے ایک ہے۔ (Photo: dawn.com)

کچھ عرصہ قبل ملم جبہ ایک غیر معروف سا علاقہ تھا لیکن حکومت نے اس تفریح گاہ کی ترقی کی جانب بھرپور توجہ دی اور اب یہ علاقہ سیاحتی طور پر ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔ ’’اس کی اِنگ‘‘ یعنی برفانی کھیل یہاں پاکستان میں پہلی مرتبہ متعارف کیا گیا ہے۔ یہاں ’’اس کی اِنگ‘‘ کے لیے کھیل کا مخصوص ڈھلان بنایا گیا ہے جس کے تحت ’’ اس کی اِنگ‘‘ سے دلچسپی رکھنے والے سیاح جنوری سے مارچ تک یہاں آکر اس کھیل سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ یہاں ہر سال "اس کی اِنگ” کے لیے خصوصی پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں جس میں ملک بھر سے لوگ شرکت کے لیے آتے ہیں۔ ہوٹل کے عین سامنے ایک خوب صورت چیئرلفٹ لگائی گئی ہے۔ لفٹ کے ہر کیبن میں دو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، جنھیں لفٹ ہوٹل کے قریب نشیبی حصہ سے ایک یا ڈیڑھ فرلانگ کی بلندی پر واقع چوٹی تک لے جاکر واپس لے آتی ہے۔ حکومت آسٹریا کے تعاون سے یہاں وسیع رقبے پر ایک قدرتی جنگل میں جنگلی جانور پالنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے جس سے قدرتی ماحول میں ہر قسم کے جانور پالے جائیں گے۔ علاوہ ازیں بجلی کی سہولت یہاں موجود ہے اور بجلی فیل ہو جانے کی صورت میں موجود دو جنریٹر بجلی پیدا کرتے ہیں۔

ملم جبہ پروجیکٹ اپنی نوعیت کا واحد سیاحتی منصوبہ ہے جس پر 12 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے، جس میں 3 کروڑ روپے کا زرِمبادلہ بھی شامل ہے۔ اس پروجیکٹ پر 1980ء میں کام شروع ہوا۔ 1985ء میں پاکستان ٹوورازم کی تحویل میں اس کے کام میں تیزی لائی گئی، اور آخرِکار 1989ء کے اوائل میں یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اس منصوبے کے تحت ملم جبہ میں سیاحوں کے لیے ہر قسم کی سہولتیں مہیا کی جا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے سوات میں حالیہ شورش کے دوران ملم جبہ کا یہ خوب صورت ہوٹل اور چیئرلفٹس عسکریت پسندوں یا نامعلوم دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہ ہوچکے ہیں، تاہم حکومت نے چیئر لفٹس جلد بحال کرنے کا اعلان کرکے اسے عملی جامہ پہنایا ہے اور ہوٹل کی ازسر نو تعمیر بھی جاری ہے۔
ملم جبہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں اعلیٰ نسل کا چکور بھی پایا جاتا ہے۔ سیب اور ناشپاتی یہاں کے اہم پھل ہیں۔ گندم، پیاز، آلو اور ٹماٹر یہاں کی عام فصلیں ہیں۔

برف کی چادر اتارنے کے بعد ملم جبہ کا ایک حسین منظر. (Photo: Unsplash)

ملم جبہ میں اب چھوٹے بڑے کئی ہوٹل بن چکے ہیں، جو یہاں آنے والے سیاحوں کی ضرورتیں پوری کرسکتے ہیں، تاہم مقامی طور پر کئی مقامات پر جھونپڑی نما ریسٹورنٹ بھی موجود ہیں جو گرمیوں میں سیاحوں کے لیے کھانے پینے کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ اپنی فطری خوبصورتی اور حسین مناظر کی کشش کی وجہ سے یہ خوبصورت علاقہ سیاحوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ اگر ڈسپنسری اور روزانہ استعمال کی اشیا کے لیے مارکیٹ وغیرہ کا اضافہ کیا جائے، تو اس طرح یہ علاقہ مزید سیاحتی اہمیت حاصل کرجائے گا، جس سے یہاں کے غریب اور پسماندہ باسیوں کا معیارِ زندگی بدلنے میں بھی خوشگوار تبدیلی آجائے گی۔ (فضل  ربی راہیؔ کی کتاب "سوات سیاحوں کی جنت” سے انتخاب)