ایک وقت تھا کہ دریائے سوات کا پانی لوگ ہاضمے اور معدے کی بیماریاں دور کرنے کے لیے استعمال میں لاتے تھے۔ اکثر لوگ مذکورہ پانی بوتلوں یا برتنوں میں اپنے گھر والوں اور دوست احباب کو دینے کے لیے بطورِ تحفہ ساتھ رکھتے تھے۔ یہ پانی ایک طرف برف پگھلنے سے مہو ڈنڈ اور دوسری طرف خرخڑی جھیل سے شروع ہوتا ہے۔ راستے میں اس میں کئی دیگر جھیلوں، صاف پانی کے چشموں اور ندیوں کا پانی شامل ہوتا جاتا ہے جس کی وجہ سے دریائے سوات کا پانی کبھی ہاضمے کے لیے مشہور ہوا کرتا تھا، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ اس پانی میں کالام سے چکدرہ تک ہوٹلوں، گھروں کا گندا پانی شامل ہوتا گیا، اور رہی سہی کسر آبادی کے نکاس کے گندے پانی نے پوری کر دی۔ مینگورہ شہر کی تمام ندیوں سمیت سوات کے ہر علاقے کی گندی ندیوں کا پانی اس دریا میں شامل کیا، جس کی وجہ سے دریائے سوات کا پانی زہریلا ہوگیا۔
دوسری جانب دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کی بھرمار کی وجہ سے دریا نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ 2010ء میں آنے والے سیلاب جس نے سوات کی تاریخ کا سب سے بڑا مالی وجانی نقصان کیا تھا، اُس کی وجہ بھی تجاوزات تھی۔ دریا کے دونوں کناروں پر تجاوزات کی وجہ سے دریا کی چوڑائی کم ہوتی گئی جس کی وجہ سے سیلاب نے جانی و مالی نقصان کیا۔ اُس سیلاب کے بعد بھی لوگوں نے سبق نہیں سیکھا۔ کالام سے لے کر لنڈاکی تک تجاوزات کا سلسلہ ایک بار پھر زور و شور سے جاری ہے۔ خاص کر مینگورہ بائی پاس پر فوڈ اسٹریٹ میں تجاوزات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، جس پر ضلعی انتظامیہ نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہ کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس سال سوات میں ریکارڈ برف باری ہوئی ہے۔ جولائی کے مہینے میں برف پگھلنے کے ساتھ دریائے سوات میں پانی کے بہاؤ میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، جو ایک طرح سے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مون سون کی بارشوں سے پہلے ہی دریائے سوات نے گبرال کے مقام پر ایک کلومیٹر روڈ زیرِ آب کر دیا ہے۔ گذشتہ ہفتہ کے روزسوات کی وادئی کالام کے قریب دریائے سوات میں طغیانی آئی، جس سے اُتروڑ گبرال روڈ کا ایک حصہ پانی میں بہہ گیا۔ آخری اطلاعات تک مذکورہ علاقے کا زمینی رابطہ منقطع تھا۔ پانی آباد ی میں داخل ہوگیا تھا جس کی وجہ سے مقامی افراد کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ اس سے چند روز قبل تحصیلِ کبل کے علاقہ ڈیلے کوزہ بانڈئی میں بھی دریائے سوات کا پانی داخل ہوگیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں نے نقلِ مکانی شروع کی تھی۔
قارئین، دراصل دریائے سوات میں جگہ جگہ ایکسکویٹر ز کے ذریعے ریت، بجری اور کرش کے لیے پتھر نکالنے اور ڈمپنگ کرنے سے بے وقت ایک بہت بڑے سیلاب کے خطرات سر پر منڈلانے لگے ہیں۔ پانی کے بہاؤ میں اضافے کے باعث کئی مقامات پر اراضی اور باغات زیرِ آب آنے کا خدشہ ہے۔ تحصیل کبل کا گاؤں ’’ڈیلے‘‘ مکمل طور پر زیرِ آب ہونے کا خدشہ ہے۔ پانی سے باغات اور کھڑی فصلیں دریا برد ہوچکی ہیں اور مسلسل کٹاؤ جاری ہے۔ متعدد مکانات بھی زیرِ آب آچکے ہیں۔ لوگ مکانات خالی کرکے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔ علاقہ کے مکینوں کے بقول چارباغ کے لوگ ایکسکویٹرز کے ذریعے ریت بجری نکالتے ہیں اور ملبہ ڈمپ کرتے ہیں جس پر پانی کا رُخ ڈیلے کی طرف ہوگیا ہے۔ ابھی مون سون کی بارشیں شروع ہونے کے ساتھ دریا میں پانی کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہوگا، جس کی وجہ سے دریا ئے سوات کے کنارے آبادیوں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں مینگورہ بائی پاس پر دریا کے اندر تجاوزات کی وجہ سے بائی پاس روڈ کو ایک بار پھر خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اگر سوات کے منتخب اراکینِ اسمبلی اور ضلعی انتظامیہ اب بھی خاموش تماشائی بن کر تجاوزات کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں رہے، تو اس بار دریائے سوات سال2010ء کے سیلاب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا، جس کی ایک جھلک دریا نے دکھا دی ہے۔
دریائے سوات کو گندگی سے روکنے کی ذمہ داری عوام کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اگر انتظامیہ نے ریور آرڈیننس کے تحت دریا کو گندگی سے نہ بچایا، تو سوات کے 23 لاکھ عوام کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سوات میں ضلع بھر اور ہوٹلوں کے نکاس کا گندا پانی شامل ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے دریا ئے سوات کی مشہور اور لذیذ مچھلیوں میں کئی بیماریاں پھیل گئی ہیں۔ سواتی مچھلی کھانے والوں کی صحت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دریائے سوات کا پانی گندا ہونے کی وجہ سے سوات میں ہیپٹائٹس اے اور ای کی بیماریاں تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں۔ دریائے سوات کا پانی جو زمین میں جذب ہو رہا ہے۔ لوگ گھروں میں پانی کے جو بور کرتے ہیں، یہ پانی اس میں شامل ہو جاتا ہے جس کے پینے کی وجہ سے لوگوں میں یرقان کا مرض تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ گندا پانی پینے کی وجہ سے لوگوں میں دیگر امراض بھی پھیل رہے ہیں جن میں معدے کی بیماریاں بھی شامل ہیں۔
اس حوالہ سے سول سوسائٹی اور تحفظِ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے سوشل ورکرز اور اداروں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے دریائے سوات سے تجاوزات کا خاتمہ نہیں کیا، تو ایک بڑے سیلاب کا خطرہ ہے، جس سے لوگوں کا 2010ء سے زیادہ جانی و مالی نقصان کا خدشہ ہے۔ اگر انتظامیہ نے دریائے سوات میں نکاس کا پانی داخل ہونے سے نہ روکا، تو سوات کے عوام میں طرح طرح کی بیماریاں پھیلنے کا عمل کوئی روک نہیں سکے گا۔ دریائے سوات کے کنارے اور دریا کی حدود میں تجاوزات کو روکنا اور تجاوز کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، لیکن معلوم نہیں کہ انتظامیہ نے اتنے خطرناک کام پر کیوں چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ اگر خدا نخواستہ اس بار سیلاب نے کسی کو جانی یا مالی نقصان پہنچایا، تو اس کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوگی۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔