اگر بی آرٹی منصوبہ نہ ہوتا تو……!

پی ٹی آئی حکومت کے کارنامے تو زبان زدِ عام ہیں ہی، لیکن بی آر ٹی پشاور عرف ’’جنگلہ بس سروس‘‘ ایک ایسا مخمصہ ہے جو کہ مستقبل میں ان کے لیے "Tragic flaw” بننے والا ہے۔ اس مہا پُرش کے حوالے سے جو تنقید مارکیٹ میں ’’اِن‘‘ ہے، وہ زیادہ تر اس کے ڈیزائین، قیمت، کرپشن اور ناقص تعمیر کے گرد گھومتی ہے، لیکن اس سب کے علی الرغم ایک طریقہ جانچ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ اگر بی آر ٹی اس صوبے کے خزانے پر رولر کوسٹر نہ چڑھاتا، تو یہ رقم کن متبادل کاموں میں لگائی جاسکتی تھی؟ جذیاتی معاشیات (Micro Economics) میں اس کے لیے ایک اصطلاح مستعمل ہے جسے "Opportunity cost” یعنی موقع لاگت کہا جاتاہے۔ اگر ہمارے صوبے کا سالانہ پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ فنڈ (پی ایس ڈی پی) ملاحظہ کیا جائے، تو ساری کہانی طشت از بام ہوجاتی ہے۔ بی آر ٹی کی کل لاگت ایک ہزار کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔
صحت، تعلیم اور امنِ عامہ کے بہت سارے ایسے کم لاگت والے اہم منصوبے اور پراجیکٹ ہیں کہ اگر ان پر کام کیا جائے، تو یقینی طور پر ہمارے صوبے کے عوام کی فوری بہبود کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔
سب سے بنیادی بات صحت کی سہولیات کے حوالے سے ہے۔ پورے صوبے میں ایمرجنسی اور لائف سیونگ ادویہ کی کم یابی کی وجہ سے مریضوں کو ڈھیر ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بینڈج پٹی سے لے کر سرنج تک بھی خود سے لانا پڑتا ہے۔ ایکسرے مشینیں، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی مشینیں اکثریت ہسپتالوں میں خراب پڑی ہیں، جس کی وجہ سے مریض پرائیویٹ جگہوں پر ہزاروں روپے دینے کے لیے مجبور ہیں۔ صوبے کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں کو سارا سال اپنی خدمات کو مہیا کرتے رہنے کے لیے محض دو سے تین کروڑ روپے کا فنڈ دیا جاتا ہے جو ماہانہ پندرہ سے تیس لاکھ روپے بنتا ہے۔ اگر یہ فنڈ سالانہ دس کروڑ کیا جائے، تو پورے صوبے کا 250 کروڑ بنتا ہے، جو کہ بی آر ٹی کے چالیسویں حصے سے بھی کم ہے۔ پورے صوبے میں ہیلتھ سیکٹر میں جتنے بھی نئے منصوبے مجوزہ ہیں، ان کی لاگت 240کروڑ ہے۔ یہ بھی بی آر ٹی کے چالیسویں حصے سے کم ہے۔ ہمارے ضلع کے لیے چلڈرن ہسپتال کب کا منظور ہوچکا ہے جس کی لاگت 70 کروڑ ہے، لیکن پچھلے بجٹ میں اس کے لیے صرف 7 کروڑ کی رقم رکھی گئی ہے۔ اگر بی آر ٹی کے تناظر میں اس کو دیکھا جائے، تو صوبے کے تمام اضلاع میں 175 کروڑ کی لاگت سے یہ ہسپتال تعمیر کیے جاسکتے ہیں جو کہ بی آر ٹی کا پچاسواں حصہ رقم بھی نہیں۔ علاوہ ازیں سیدو میڈیکل کالج میں ڈنٹسٹری (دانتوں) کے کالج کے لیے نو کروڑ کی رقم درکار ہے اور یہ منصوبہ پچھلے کئی سالوں سے رقم نہ ہونے کی وجہ سے زیرِ التوا ہے، جب کہ یہ بی آر ٹی کے 100ویں حصے سے بھی کم رقم ہے۔
پورے صوبے کی تمام لائبریریوں کو اعلیٰ انداز سے چلانے اور ترقی دینے کے لیے محض دس کروڑ روپے درکار ہیں جو کہ بی آر ٹی کی وجہ سے محض تین کروڑ جاری کیے گئے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ہائیر ایجوکیشن اب صوبوں کی ذمہ داری بن گئی ہے۔ پورے صوبے کے تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں کو کل ملاکر 450 کروڑ کی رقم جاری کی گئی ہے، جو کہ بی آر ٹی کا بیسواں حصہ بھی نہیں بنتی، جب کہ اس کے مناسب انتظام اور ترقی کے لیے درکار رقم 2100 کروڑ ہے۔ پورے صوبے میں کامرس ایجوکیشن کے لیے محض چار کروڑ روپے کی رقم ترقیاتی زمرے میں رکھی گئی ہے جو کہ ایک مذاق کے مترادف ہے۔
ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم قوموں کی ترقی اور عوام کے ہنر مند بنانے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے نئے منصوبوں اور مناسب انتظام کے لیے درکار رقم 550 کروڑ ہے جو کہ بی آر ٹی کا تقریباً بیسواں حصہ بنتی ہے، لیکن اس کے لیے محض 56 کروڑ کی رقم مختص کی گئی ہے۔
دریائے سوات کے اوپر دو بڑے پل ننگولی، آلہ باد اور کبل، تختہ بند بہت عرصے سے زیرِ التوا ہیں جن کی کل لاگت 328 کروڑ ہے جو کہ بی آر ٹی کا تیسواں حصہ بھی نہیں بنتی، لیکن اس کے لیے ایک دھیلہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ کبل ہسپتال کی کیٹیگری سی میں اَپ گریڈیشن کے لیے محض 43 کروڑ روپے درکار ہیں جس میں سے صرف 6 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
قارئین کرام! بی آر ٹی کی مثال سفید ہاتھی کی سی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے پوری صوبائی حکومت مفلوج ہوچکی ہے۔ صرف اسی کے اللّے تللّے برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں بار تو اس کا ڈیزائین تبدیل ہوچکا ہے اور ابھی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ سڑک کی چوڑائی ابتدائی ڈیزائین کے علی الرغم کم رکھی گئی ہے، جس کی وجہ سے بسوں کے دورانِ سفر ایک دوسرے سے ٹکرانے کا خطرہ ہے۔ پہلے ہی تعمیراتی میٹرئل کے گرنے کی وجہ سے متعدد ہلاکتیں وقوع پذیر ہوچکی ہیں۔
جب غیر سنجیدہ اور نااہل لوگوں کے معاملات سپرد کیے جاتے ہیں، تو پھر اسی قسم کے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں صاحبِ عقل و خرد ’’اندھوں کے شہر میں آئینہ بیچنے‘‘ کے مترادف ہوتے ہیں۔

………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔