عبدالجبار شاہ کے رخصت ہونے سے میاں گل عبدالودود (1883ء تا1971ء) کو ایک سنہری موقع ہاتھ لگا کہ وہ سوات کی سرزمین پر اپنے دُنیوی اور روحانی بادشاہت کے دیرینہ خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنا سکے۔ قسمت اُس کے ساتھ تھی۔ اس لیے کہ اس وقت اس منصب کے لیے اُس کا حقیقی حریف صرف نوابِ دیر ہوسکتا تھا،لیکن وہ اس دوران جندول کے مسائل میں اتنا الجھا ہوا تھا کہ سوات کی طرف توجہ کرنا اُس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس مقصد کے لیے منعقدہ جرگوں میں اُس کی حمایت کی سب سے بڑی وجہ اُس کا سیدوبابا کا پوتا ہونا تھا۔ یہی اُس کا سب سے بڑا سرمایہ اور ہتھیار تھا۔ اس کو دیکھتے ہوئے بالآخر اُسے سوات کا بادشاہ بنالیا گیا۔
اُس کی یہ منصب سنبھالنے کی اصل تاریخ یقینی طورپر معلوم نہیں۔ شمال مغربی سرحد کی صوبائی خفیہ ڈائری نمبر 36 میں جس پر ہفتہ ختم ہونے کی تاریخ 8 ستمبر 1917ء درج ہے، یہ تحریر ملتی ہے کہ عبدالجبار شاہ کی بے دخلی کے بعد لوگوں نے اُس کے آدمیوں سے قلعے لے لیے ہیں اور جرگوں کا انعقاد جاری ہے، جہاں پر اس خواہش کا اظہار ہورہا ہے کہ انگریز سرکار کو مداخلت کرکے سوات کو اپنے قبضہ میں لے لینا چاہیے۔ اس کے بعد والی ڈائری بتاتی ہے کہ نیک پی خیل اور متوڑیزئی قبائل نے ممکنہ طورپر اُس کی حکومت کو تسلیم کرلیا ہے۔
اس کے بعد والی ڈائری نمبر 38 میں جس پر اُس ہفتہ کی اختتامی تاریخ 22 ستمبر 1917ء 1917ء درج ہے لکھا ہے کہ سوات بالا کے پورے علاقہ نے ما سوائے اباخیل، موسیٰ خیل، عزی خیل اور جِنکی خیل کے میاں گل گل شہزادہ کو بادشاہ تسلیم کرکے اُسے محاصل دینے کی حامی بھری ہے۔ عزی خیل اور جنکی خیل اس ضمن میں اپنا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے جرگے کر رہے ہیں۔ ستمبر 1917ء کا دوسرا ہفتہ تھا کہ چندا خورہ (جسے اب عموماً کبل کہا جاتا ہے) کے سبزہ زار پر اُس کے سر پر حکمرانی کی پگڑی رکھ دی گئی۔ عبدالجبار شاہ کی جائے قیام بھی یہی جگہ تھی۔ آہستہ آہستہ سارے قبائل نے اُس کی حیثیت تسلیم کرلی۔
اس عمومی غلط فہمی کو دور کرنا انتہائی اہم ہے کہ ریاست سوات کی بنیاد میاں گل عبدالودود نے رکھی ہے یا یہ کہ وہ اس ریاست کا بانی تھا یا اس کا پہلا بادشاہ تھا یا اس کا پہلا حکمران تھا۔ یہ بات سمجھنی آسان ہے کہ کیوں، کیسے اور کب یہ ریاست وجود میں آئی اور یہ کہ اس کے بانی مبانی کون تھے۔
مارچ 1915ء میں نوابِ دیر کی حکومت ختم کرکے اپریل 1915ء میں اس نئی ریاست کا قیام کسی ’’کرشمہ ساز رہنما‘‘ کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ یہ سوات کے سیاسی قائدین کے ایک حصہ کی مربوط جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ان کی سیاسی تنظیم کی نمایاں خصوصیت اس بات پر مسلسل اصرار تھا کہ ’’آزادانہ انتخاب و معاہدہ۔‘‘ اس طرح ایک بنی بنائی ریاست قائم کرکے ’’کرشمہ ساز قائد‘‘ کو سونپ دی گئی۔
اکبر ایس احمد کا کہنا ہے کہ کرشمہ ساز قیادت بے عملی کے ساتھ حالات کا انتظار نہیں کرتی بلکہ وہ حالات کی تخلیق کرتی ہے۔ تا ہم یہاں اُن کے اس کرشمہ ساز لیڈر میاں گل عبدالودود نے حالات و واقعات کی تخلیق نہیں کی بلکہ وہ تو دوسروں کے تخلیق کردہ حالات سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ یوں اس کرشمہ ساز قائد کی ملاکنڈ میں تعینات انگریز پولی ٹیکل ایجنٹ سے مشورہ کیے بغیر اقتدار سنبھالنے سے لاتعلقی کا اظہار اور بروقت موقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکامی ہی کا نتیجہ تھا کہ اپریل 1915ء میں سیاسی اقتدار میاں گل عبدالودود کی جگہ عبدالجبارشاہ کو سونپ دیا گیا۔
یہ ’’سیاسی قیادت کی طرف سے آزادانہ انتخاب اور معاہدہ‘‘ کے حق کا آزادانہ استعمال ہی تھا کہ اس ریاست کی حکمرانی کی پیش کش مختلف افراد، ہندوستانی مجاہدین کے امیر نعمت اللہ اور حاجی صاحب آف ترنگزئی کو بھی عبدالجبار شاہ کے عہد میں کی گئی، تاکہ ایک مضبوط حکومت کی خواہش کو پورا کیا جاسکے، بلکہ اس مقصد کے حصول کے لیے انگریز سرکار سے بھی کئی بار درخواست کی گئی کہ وہ اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔ ’’سیاسی قیادت‘‘ کا یہ خاص حصہ تھا جس نے اپنے ’’آزادانہ اختیار و معاہدہ‘‘کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے عبدالجبار شاہ کو تخت سے اتار کراس کی پیشکش ایک بار پھر اُس ’’کرشمہ ساز قائد‘‘ کو کردی جو نہ صرف یہ کہ ماضی میں اس پیش کش کو ٹھکرانے پر پشیمان تھا، بلکہ جسے باقاعدہ سرکاری سرپرستی بھی حاصل تھی۔ اپنی کرشمہ ساز شخصیت اور روحانی سلسلۂ نسب کے باوجود وہ ماضی میں دوبار اُن حالات و واقعات سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا تھا، جو دوسروں کے پیدا کردہ تھے لیکن ستمبر 1917ء میں اُسے بہرحال بادشاہ مقرر کردیا گیا۔
میاں گل عبدالودود نہ تو ’’ریاست سوات کا بانی‘‘ تھا اور نہ ہی اس کا پہلا حکمران تھا۔ ریاست سوات کے دراصل بانی وہ لوگ تھے جنہوں نے فروری 1915ء میں سوات میں نوابِ دیر کے خلاف متّحد ہو کر اُس کا اقتدار ختم کر دیا تھا۔ مارچ میں پانچ رکنی کونسل کا قیام اور 24 اپریل 1915ء کو عبدالجبارشاہ کو اس نوزائیدہ ریاست کا پہلا بادشاہ بنادیا تھا۔ اس طرح اس ریاست کوقائم کرنے کا اعزاز سیاسی قیادت کے اُس حصہ کو حاصل ہے اور اس کا پہلا بادشاہ ہونے کا اعزاز عبدالجبارشاہ کے پاس ہے۔ اے ایچ دانی نے بھی اکبر ایس احمد کے اس دعویٰ کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’اس تاریخی پس منظر میں اکبر ایس احمد کا کسی ٹوپی سازی کی تحریک کے نتیجہ میں اس ریاست کے ارتقا کا نظریہ یہاں کسی طور ٹھیک نہیں بیٹھتا۔‘‘
چارلس لنڈھامزنے فریڈرک بارتھ، اکبر ایس احمد، میاں گل عبدالودود اورمِیکرکے حوالہ سے یہ بات کہی ہے کہ ’’بیسویں صدی کی ابتدا میں بدلتے اتحادوں کے ایک ڈھانچا پر ایک قسم کی مرکزی حکومت مسلط کردی گئی۔‘‘ اگرچہ یہ بعد میں مستحکم ہوگئی اور اس کے استحکام میں اضافہ ہوتا رہا لیکن یہ مرکزی حکومت مسلط کردہ نہیں تھی بلکہ یہاں کی قیادت کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ عبدالودود، بارتھ، لنڈھامزاور اکبرایس احمد کے ریاست کے آغاز کے بارے میں بیانات غلط بیانی پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ گم راہ کن ہیں۔ تاہم یہ بات صحیح ہے کہ میاں گل عبدالودود وہ پہلا حکمران ہے جسے انگریزوں نے سرکاری طورپر تسلیم کیا، لیکن ایسا بھی بہت بعد میں یعنی 1926ء میں ہوا اور وہ بھی والی (حاکم) کے لقب کے ساتھ، بادشاہ یا باچا کا لقب قبول نہیں کیا گیا۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 81 تا 8 3 سے انتخاب)