سردار خالد ابراہیم کی یاد میں

سردار خالد ابراہیم خان اگرچہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرچکے، لیکن وہ ایک بااصول اور کھرے سیاست دان کے طور پر تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ سیاست نام ہے نشیب وفراز کا، لیکن وہ ہمیشہ اصولوں پر جمے رہے۔ جھکنا اور بکنا ان کی لغت میں تھا ہی نہیں۔ بے لچک طبیعت کی بنا پر سیاست میں بے پناہ نقصان بھی اٹھایا لیکن کبھی کسی تأسف کااظہار نہ کیا۔
اپنے والد سردار محمد ابراہیم خان جو تحریک آزادی کے قائد اور آزادکشمیر کے بانی صدر تھے، کے مکتب سے سیاست کے اسرار و رموز سیکھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاکی مذمت اور مزاحمت میں جیالوں کے شانہ بشانہ ڈٹ کر کھڑے ہوئے۔ جنرل ضیا کے طاقتور رفیقِ کار جنرل فیض علی چشتی، کشمیری امور کی وزارت کے نگران تھے۔ سردار ابراہیم کو پیشکش کی کہ وہ منصبِ صدارت پر فائز رہیں۔ ضیا ء الحق چاہتے تھے کہ یہ تسلسل قائم رہے۔ سردار خالد ابراہیم کو پتا چلا، تو انہوں نے کہا کہ ہم بھٹو خاندان کے ساتھ بے وفائی نہیں کرسکتے۔ چناں چہ ان کے والد صدارت سے الگ کر دیے گئے۔
ضیاء الحق کا پُرآشو ب دورِ حکومت جہاں پیپلز پارٹی کے جیالوں پر قہر بن کر ٹوٹا، وہاں خالد ابراہیم خان بھی متعدد بار جیل گئے۔ راولاکوٹ سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے دوران مَیں نے انہیں زخمی حالت میں دیکھا۔ ان کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا، لیکن وہ مسلسل پیش قدمی کر رہے تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو وطن لوٹیں، تو پاکستان کی سب سے مقبول لیڈر تھیں۔ راولاکوٹ کے دورے پر تھیں۔ پہاڑی علاقے کے طویل اور تھکا دینے والے سفر میں بے نظیر کو جگہ جگہ استقبالیہ تقریبات سے خطاب کے لیے روکا جاتا۔ ’’منگ‘‘ روایتی اور قدامت پسند لوگوں کا خطہ ہے۔ عورتیں خلافِ معمول گھروں سے نکل آئیں۔ بی بی کی ایک جھلک دیکھنے کو ہرکوئی بے تاب تھا۔ تنگ جگہ کی وجہ سے لوگ دکانوں کی چھتوں اور درختوں پر چڑھ گئے۔ محترمہ مسلسل خطابات سے تھک چکی تھیں، انہوں نے تقریر کرنے سے انکار کر دیا۔ خالد ابراہیم نے اصرار کیا لیکن وہ نہ مانی۔ خالدابراہیم جو گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے، ناراض ہوگئے اور وہاں سے چلے گئے ۔ بے نظیر نے بات دل میں رکھ لی اور پارٹی کے اندر لوگ بھی انہیں بھڑکانے والے بہت تھے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی، تو سردار ابراہیم خان جو پارٹی کے صدر تھے، انہیں نظرانداز کرکے ممتاز حسین راٹھور کو وزیراعظم بنا لیا گیا۔ سردار ابراہیم خان اس غیر متوقع سانحہ سے ٹوٹ پھوٹ گئے۔ راولاکوٹ کے بسم اللہ چوک میں بزرگ سیاست دان نے بارگاہِ ایزی میں ہاتھ بلند کیے اور کہا: ’’بے نظیر بھٹو آپ نے میری سیاست دریائے جہلم میں غرق کی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی سیاست دریائے سندھ میں غرق کرے۔‘‘ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے نام سے انہوں نے اپنی جماعت قائم کی اور پاکستان کی جماعتوں سے الگ رہ کر مقامی سطح پر اپنے بل بوتے پر سیاست کرنے کی راہ اختیار کی۔ دم واپسیں تک وہ اسی پارٹی کے راہبر ورہنما رہے ۔
اپنی ہٹ کے وہ پکے تھے۔ سردار عبدالقیوم خان وزیراعظم منتخب ہوئے۔ نجانے اس بزرگ سیاست دان کو کیاسوجھی، چار سو سے اوپر سرکاری ملازمین بھرتی کرلیے۔ زیادہ تران کی جماعت کے کارکن تھے، یا پھر حکمران پارٹی کے لیڈروں کے رشتے دار۔ خالد ابراہیم نے میرٹ کی بالادستی کے لیے احتجاجاً اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دے دیا۔ بعدازاں عدالت نے ان ملازمین کی بھرتی کو خلافِ قانون قرار دیا۔ اسمبلی سے استعفا نے انہیں پورے خطے میں ایک بااصول اورجرأت مندت مند سیاست دان کے طورپر منوایا۔ ان کا شمار ان چند سیاست دانوں میں ہوتا تھا، جنہوں نے سیاست کو کمائی کا ذریعے نہیں بنایا، بلکہ اپنی جوانی، وقت اور مالی وسائل کو عوام کی خدمت کے لیے وقف کیا۔ ان کا گھر بکا، تو الیکشن میں اٹھنے والے اخراجات اور قرض کی ادائیگی ممکن ہوئی۔ گاؤں میں برسوں تک والد کے بنائے ہوئے پرانی طرز کے گھر میں مقیم رہے۔ ذاتی گھر کی تعمیر شروع کی، لیکن گذشتہ پندرہ برسوں میں بھی مکمل نہ کرپائے۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کے والد سردار ابراہیم خان نے چالیس کے عشرے میں لندن کے ’’لنکن انز‘‘سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی۔ مہا راجہ ہری سنگھ کے دور میں ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل مقرر ہوئے اور چار بار آزادکشمیر کے صدر۔ دھن، دولت اور جاہ وحشمت ان کے گھر کی لونڈی تھی، لیکن انہیں کبھی نمود و نمائش کی خواہش رہی، نہ دولت جمع کرنے کی۔ یہی وجہ ہے کہ پورا کشمیر ان کی جدائی میں اشکبار ہوا اور غم سے نڈھال۔ چار سو غم اور سوگ کی کیفیت برپا تھی۔
اہلِ ثروت خدمت اور وسائل کی فراہمی کے لیے ہروقت مستعد رہتے، لیکن یہ بندۂ خدا کسی کا احسان لینے کو تیار نہ ہوتا۔ کئی بار لوگوں نے نقد روپیہ بھیجا، لیکن شکریہ کے ساتھ لوٹا دیتے۔ پرانی طرز کی سیاہ رنگ کی جیپ پر سفر کرتے۔ اکثر خود ڈرائیو کرتے۔ سفر میں خراب بھی ہوجاتی، لیکن حرفِ شکایت زبان پر نہ لاتے۔ درویشی کی اس راہ پر وہ اپنی مرضی سے گامزن ہوئے۔ صابر و شاکر شخصیت کے مالک تھے۔ روایتی سیاست دانوں کے برعکس انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے، نہ سرکاری نوکری کے لیے سفارش کرتے۔ اساتذہ کی تقرریوں اور تبادلوں سے دور رہتے۔ رکنِ اسمبلی کے طور پر جو ترقیاتی وسائل ملتے، انہیں احتیاط اور ذمہ داری سے خرچتے۔ خود چھوٹی چھوٹی سڑکوں کا جائزہ لینے بھی جاتے۔ سرکاری مال کو امانت اور دیانت سے برتے۔
مطالعہ کا ذوق تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح سے بے پناہ محبت کرتے۔ سیاست میں وہ ان کے آئیڈیل تھے۔ ان ہی کی طرح وہ صاف ستھرے اور شفاف سیاست دان کے طور پر شناخت کیے جاتے۔ اس طالب علم کو بھی قائد اعظم کی شخصیت اور سیاست سے گہری دلچسپی ہے۔ موقع ملتا، تو انہیں چھیڑنے کی خاطر قائداعظم کے حوالے سے کوئی نکتہ اٹھا دیتا۔ وہ حوالوں کے ساتھ دلچسپ واقعات بیان کرتے۔ ہر محفل میں ڈٹ کر اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے۔اکثر کہتے کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا، نہ کہ مذہبی پیشواؤں کی بالادستی کے لیے۔ جماعتِ اسلامی کشمیر کے حوالے سے ہر سال فروری میں اسلام آباد میں سیمینارمنعقد کرتی۔ وہ شرکت ضرور کرتے، لیکن گفتگو میں جماعتِ اسلامی کی نظریاتی اور سیاسی فکر کو چیلنج کرتے، تومنتظمین جزبز ہوجاتے۔ اکثر سیاسی مجالس میں وہ منفرد نقطۂ نظر اپناتے اور بسااوقات بات تلخی تک جاپہنچتی۔ چند ہفتوں سے سخت دباؤ کا شکار تھے۔ آزادکشمیر میں ججوں کا تقرر ہو یا الیکشن کمیشن کا، برداری ازم، جماعتی وابستگیوں اور ذاتی دوستیوں کو اکثر میرٹ پر ترجیح دی جاتی ہے۔ چند ماہ قبل اعلیٰ عدلیہ میں ہونے والی نئی تقرریوں پر بہت لے دے ہوئی۔ سردار خالد ابراہیم نے اسمبلی میں عوامی جذبات کو زبان دی، تو ججوں کو بہت ناگوار گزرا۔ توہینِ عدالت کا نوٹس جاری ہوا۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں اپنا مؤقف دہرایا۔ اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ عدالت مزید بپھر گئی۔ پسِ پردہ مذاکرات اور کوششوں کے باوجود خالدا براہیم نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ پولیس کو حکم دیا گیا کہ انہیں گرفتار کرکے پیش کیا جائے۔ غالباً یہ وہ دباؤ تھا، جس نے اس سینئر سیاست دان کی جان لے لی۔ بلیڈ پریشر حد سے بڑھا۔ دماغ کی شریان پھٹ گئی۔ ہسپتال پہنچے ضرور لیکن جاں بر نہ ہوسکے۔ توہینِ عدالت کے مقدمہ میں وہ پیش ہونے کو تیار نہ تھے۔ انہیں ججوں کی میرٹ پر تقرری پر اعتراض تھا۔ پولیس ان کی گرفتاری کے لیے پرتول رہی تھی۔ غالباً وہ اگلے چند دنوں میں دھر لیے جاتے۔ گرفتار ی سے بچانے اور توہین آمیز سلوک سے محفوظ رکھنے کی خاطر خالقِ حقیقی نے اس مردِ قلندر کو اپنے پاس بلا لیا۔
’’وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو کہتے ہیں، ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ 156)

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔