’’نظریہ‘‘ کے حوالہ سے محمد دین جوہر صاحب اپنے ایک مضمون ’’نظریہ کیا ہے؟‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہم نے زندگی میں کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا جس کا کوئی نام نہ ہو اور جو معمولی ساکھ بھی نہ رکھتا ہو۔ معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے آدمی کو شناخت اور کام دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نام شناخت کا ذریعہ ہے، اور کام سے ساکھ بنتی ہے۔ اسی طرح دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس کی شناخت نہ ہو اور وہ ساکھ سے بھی خالی ہو، کیوں کہ نام اور ساکھ کے بغیر قوم بنتی ہے اور نہ باقی رہ سکتی ہے۔ نظریہ معاشرے کو شناخت دے کر قوم بناتا ہے لیکن نظریہ کچھ عملی مقاصد بھی رکھتا ہے، جن کا حصول قوم کی ساکھ بناتا ہے۔ جدید دنیا میں قوم ہونے کا مطلب ہی سیاسی شناخت ہے جو کسی نہ کسی نظریے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے نظریہ سیاسی ہوتا ہے اور قوم کے سیاسی عمل کے مقاصد بھی متعین کرتا ہے۔‘‘
یہ بالکل لازمی بات نہیں کہ ہم محولہ بالا اقتباس کے حوالہ سے محمد دین جوہر صاحب کے ساتھ مکمل طور پر متفق ہوں۔ البتہ ان کی یہ بات سولہ آنے ٹھیک ہے کہ ’’نظریہ، معاشرے کو شناخت دے کر قوم بناتا ہے۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ جس آدمی کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، اُس کی مثال اُس مسافر کی سی ہوتی ہے، جو رختِ سفر باندھ کر گھر سے نکلتا ہے اور مارا مارا پھر کر شام کو واپس گھر آجاتا ہے۔ کیوں کہ اُسے اپنی منزل کا پتا نہیں ہوتا، اُس نے اپنی سمت متعین نہیں کی ہوتی۔ اُسے یہ علم نہیں ہوتا کہ جانا کہاں ہے؟ شائد اس لیے میں نے بھی زندگی گزارنے کے لیے ایک نظریہ اپنایا ہے۔ جب تک میری زندگی میں مذکورہ نظریہ کا عمل دخل نہیں تھا، تب تک میری زندگی کی نیّا ڈانواں ڈول تھی۔ زندگی گزارنے کا میرا نظریہ انتہائی سادہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کھانا، پینا، بچے جننا اور سونا زندگی ہے، تو ایسی زندگی تو جانور بھی گزارتا ہے۔ اگر صرف پیٹ کے لیے دوڑ دھوپ کا نام زندگی ہے، تو ایسی دوڑ دھوپ تو ایک چوپایہ بھی کرتا ہے۔ پس ایسا کون سا عمل ہے، جو ہمیں انفرادیت بخشتا ہے؟

اگر کھانا، پینا، بچے جننا اور سونا زندگی ہے، تو ایسی زندگی تو جانور بھی گزارتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں فخرِ افغان باچا خان بابا کے ایک انٹرویو کا حوالہ دینا چاہوں گا اور یہ بطورِ خاص رقم کرنا چاہوں گا کہ مذکورہ انٹرویو ماہنامہ ’’جامعہ اسلامیہ‘‘ (جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک) میں سنہ 1973ء کو شائع ہوا ہے۔ اس انٹرویو میں باچا خان بابا سے ساتواں سوال کچھ یوں پوچھا گیا ہے: ’’آپ نے کئی موقعوں پر لفظ ’’خدمت‘‘ استعمال کیا ہے۔ آپ اس سے کیا مراد لیتے ہیں؟ بالخصوص جب آپ وطن واپسی پر اسی ’’خدمت‘‘ کے لیے موقع چاہتے ہیں؟‘‘ سوال کے جواب میں بابا کہتے ہیں: ’’ہر غرض اور لالچ سے بلند ہو کر صرف خدا کی خاطر لوگوں کی خدمت۔ یہی اس کی تعریف ہے۔ خدمت ہی سے تعمیرِ نو کا جذبہ اُبھرتا ہے اور اسی خدمت ہی سے برباد قومیں آباد ہوئی ہیں۔ اسی خدمت کی بنیاد پر آزادی سے قبل ہم نے خدائی خدمتگار جماعت بنائی تھی۔ میں اُس وقت ہندو رہنماؤں سے کہا کرتا تھا کہ مسلمان، ہندوؤں سے سوشیلی ایڈوانس (معاشرتی طور پر آگے) ہیں۔ ان کے تنزل کا سبب صرف یہ ہے کہ ان میں کوئی خدمت کرنے والا لیڈر نہیں اور جب کوئی ان کی خدمت کرنا چاہتا ہے، تو وہ اسے غدار کہتے ہیں اور اسی لیے پوری دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اب بھی دیکھ لیجیے ہم نے آزادی حاصل کرلی ہے لیکن غلّہ اور روپیہ دونوں غیر ملکوں سے مانگتے ہیں۔ کیا ہم میں ایک بھی ایسا شخص ہے جو اس بے غیرتی کو محسوس کر رہا ہو۔ یہ کیوں ہوا؟ اس لیے کہ ہم خدمت کی قدر نہیں کر تے۔ حالاں کہ ہر جگہ، ہر سطح پر اور زندگی کے ہر پہلو میں خدمت اور خدمت کرنے والوں کی قدر کی ضرورت ہے۔ جس ملک میں خدمت کی بے قدری ہوجائے، اس ملک میں خدمت کرنے والے پیدا ہونا بند ہوجاتے ہیں۔ اور یہی اس قوم کی تباہی کا سامان بنتا ہے۔‘‘

بقول باچا خان، مسلمانوں کے تنزل کا سبب صرف یہ ہے کہ ان میں کوئی خدمت کرنے والا لیڈر نہیں اور جب کوئی ان کی خدمت کرنا چاہتا ہے، تو وہ اسے غدار کہتے ہیں۔

غالباً جس مقصد کے حصول کے تحت یہ نشست لی جا رہی ہے، اس کے لیے میدان ہموار ہوچکا۔ اب آتے ہیں یہاں سوات میں ہونے والے حالیہ دو جلسوں کی طرف۔ دو پارٹیاں، ایک عوامی نیشنل پارٹی، دوسری عوامی ورکرز پارٹی۔ دونوں نظریاتی سیاست کی دعویدار، دونوں عوام کے نام پر متحرک سیاست کی دعویدار۔ مگر اب کی بار اس معیار پر صرف عوامی ورکرز پارٹی ہی پوری اتری جس کے روح رواں فانوس گجر ہیں۔ وہ یوں کہ بحیثیت ایک عام آدمی ہم اہلِ سوات سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ ہمارے مسائل کیا ہیں؟ ہمارے مسائل واقعی ضلع کے اندر تھوک کے حساب سے قائم چیک پوسٹ، ان پر ہمارے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ اور ہمارے لاپتا لوگ ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے بڑے بزرگ آئے، کرکٹ سٹیڈیم میں مکے لہرائے اور ’’طاقت‘‘ کا بھرپور مظاہرہ کرکے واپس چلے گئے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ بھئی، کیا یہ دنگل کا میدان سجا تھا، یا پھر کبڈی کھیلنے کا پروگرام تھا کہ آپ حضرات اسے اخباری اطلاعات کے مطابق ’’طاقت کا مظاہرہ‘‘ گردان کربری الذمہ ہوگئے؟ بھئی، اگر آپ پختونوں کے نام پر سیاست کا علم اٹھائے ہوئے ہیں، تو آپ کو پختونوں کے مسائل پر بات کرنا ہوگی۔ ایسی سیاست میرے کس کام کی جس میں میرے حوالے سے، میرے دکھوں کے حوالے سے، مجھے درپیش مسائل کے حوالے سے ایک نکتہ تک نہ ہو۔ بھئی، آپ لوگ خود نظریاتی سیاست کے دعویدار ہیں۔ کہاں گیا باچا خان بابا کا نظریہ؟ بھلے ہی کوئی مجھ سے اتفاق نہ کرے، مگر یہ جلسہ اہلِ سوات کو عوامی نیشنل پارٹی کی طاقت کے اندازے کے علاوہ کچھ فائدہ دینے میں ناکام رہا۔
ان سطور کے ذریعے میں عوامی ورکرز پارٹی کا بطورِ خاص مشکور ہوں کہ بلوگرام فٹ بال گراؤنڈ میں انہوں نے ایک سادہ مگر پُروقار جلسہ کا انعقاد کیا اور اس میں ’’اعلامیۂ سوات‘‘ کے نام سے اہلِ سوات کے تمام دکھوں کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ ببانگ دہل اُس تحریک کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا جو ’’سوات قومی جرگہ‘‘ کے نام سے ایک بار پھر منظم ہونے جا رہی ہے۔ اس موقع پر اگر میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ذکر نہیں کروں گا، تو یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ ضلع سوات میں چاہے وہ شورش کا دور ہو یا اس کے بعد ’’حکومتی رِٹ‘‘ کی بحالی والا دور ہو، اہلِ سوات کے شانہ بشانہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی ضلعی قیادت ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتی چلی آئی ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے بلوگرام گراونڈ میں ہونے والے جلسے کا منظر۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

جاتے جاتے ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ زندگی کھانے، پینے، بچے جننے، سونے اور ’’اندھی تقلید‘‘ کا نام نہیں۔ اور زندگی ہرگز اپنے پیٹ کے لیے دوڑ دھوپ کا نام نہیں۔ یہ نظریہ اپنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہروہ شخص ’’زندہ باد‘‘ جو میری بات کرتا ہے، جو میرا دکھ محسوس کرتا ہے، جو میرے غم میں برابر کا شریک ہے۔ اس کے علاوہ سب ’’مردہ باد‘‘، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔