19 مارچ، شفیق الرحمان کا یومِ انتقال

19 مارچ کو افسانہ نگار و مِزاح نگار شفیق الرحمان فوت ہوئے۔
وکی پیڈیا کے مطابق 19 مارچ 2000ء کو شفیق الرحمان دارِ فانی سے رُخصت ہوئے۔ آپ اپنے رومانوی افسانوں اور مِزاحیہ مضامین کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے، تاہم آپ کو بنیادی طور پر ایک مِزاح نگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔
وکی پیڈیا کے مطابق شفیق الرحمان کلانور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ شفیق الرحمن کے والد کا نام عبد الرحمان تھا۔ انہوں نے ایم بی بی ایس (پنجاب)، ڈی پی ایچ (اڈنبرا، برطانیہ)، ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ (لندن)، فیلو آف فریشنز اینڈ سرجنز (پاکستان) کی ڈگری حاصل کی۔ 1942ء میں جامعہ پنجاب کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا۔
وکی پیڈیا کے مطابق زمانۂ طالب علمی کے دوران میں کنگ ایڈورڈ کالج لاہور کے ادبی مجلہ کے ایڈیٹر رہے ۔ یہ زمانہ 1941ء سے 1942ء تک کے عرصہ پر محیط ہے۔ لڑکپن اور جوانی میں سیر و سیاحت، کرکٹ باکسنگ اور تیراکی میں جنون کی حد تک دلچسپی رہی جب کہ کارٹون نگاری، مصوری اور فوٹوگرافی کے خبط اس کے علاوہ تھے۔
وکی پیڈیا کے مطابق شفیق الرحمان نے ریٹائر زندگی کے آخری کئی سال گوشہ نشینی میں گزارے۔ ان کے تین بیٹے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا بینک میں ملازم رہا جبکہ درمیان والے نے خود کُشی کر لی تھی۔ چھوٹے بیٹے کی آنکھ میں پچھلے حصے میں بندوق کا چھرہ لگ گیا تھا جس سے ان کی آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی تھی۔ شفیق الرحمان 19 مارچ 2000ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔