سواڑئی سے دیوانہ بابا تک

سواڑیٔ سے گاڑی میں سوار ہو کر پہلا گاؤں کلپانی آتا ہے۔ یہ بہت مشہور ومعروف اور تاریخی گاؤں ہے۔ دولت زیٔ قبیلہ کے جگر گوشوں کا مسکن ’’کلپانی‘‘ گنجان آباد، زرخیز اور مردم خیز علاقہ ہے۔ سڑک نے دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے نیم شہری حیثیت سے نوازا ہے۔ اسی وجہ سے سڑک کے دونوں کنارے ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ بوڑھوں اور جوانوں کا رش دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی، تعلیمی اور زرخیز مٹی کی وجہ سے یہاں کے لوگ تمام شعبہ ہائے زندگی پر اپنا گہرا اثر اور مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔ یہ ریاستی دور کے انتہائی منظورِ نظر علاقوں میں سے ایک تھا، اسی وجہ سے اسے تحصیل کا درجہ حاصل تھا، جو اب تک قائم ہے اور جو ہر لحاظ سے لاجواب اور بے مثال ہے۔
اس گاؤں سے نکل کر تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلہ پر جرنیلی سڑک سے جنوباً شرقاً ذیلی سڑک جدا ہوتی ہے جو سیدھا جاکر باجکٹہ نامی گاؤں پر ختم ہوتی ہے۔ ضلع بونیر میں باجکٹہ بھی کلیدی حیثیت کا حامل گاؤں قرار دیا جاتا ہے۔ سیاسی لحاظ سے یہ بہت وسیع القلب گاؤں واقع ہوا ہے۔ ریاست سوات میں وادیٔ بونیر کی شمولیت میں اس گاؤں کا بہت بڑا اور اہم رول رہا ہے۔ ریاست کے پہلے ’’خان بہادر‘‘ کا اعزاز فرزندِ باجکٹہ کو حاصل ہے، لیکن ریاست ڈھانے میں بھی باجکٹہ کی سیاسی بالغ نظری، دور اندیشی اور فراست نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
باجکٹہ اپنے سینے میں ہزاروں سالہ تاریخ بھی امانت کے طور پر رکھے چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں بنی اسرائیل پیغمبر کی آخری آرام گاہ اور مرقد موجود ہے۔ اس پیغمبر کی موجودگی کے علاوہ بھی اس کی مٹی میں کئی بزرگ اولیائے کرام اور یوسف زیٔ سورما محوِ استراحت ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ باجکٹہ پر ایک روحانی چادر سایہ فگن ہے۔

باجکٹہ میں بنی اسرائیل پیغمبر کی آخری آرام گاہ اور مرقد موجود ہے۔ (Photo: Tribal News Network)

آبادی کے لحاظ سے باجکٹہ ضلع کے گنجان آباد دیہاتوں میں سے ایک ہے۔ باجکٹہ جانے والی سڑک کو چھوڑ کر بڑی شاہراہ پر سیدھا سفر جاری رکھتے ہوئے دیوانہ بابا کی آبادی شروع ہوتی ہے جو تقریباً دو کلومیٹر تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔ دیوانہ بابا میں کافی بڑا بازار ہے جس میں تقریباً تمام اشیائے ضروریہ موجود ہواکرتی ہیں۔ مقامی لوگوں کے علاوہ یہ علاقہ چغرزیٔ کے تمام لوگوں کا مصروف ترین بازار ہے۔ یہ بدال، ریال، کلپانڑی، بدال میرہ، دیوانہ بابا، مٹوانی اور دوسرے مضافات کے باشندوں کے لیے سیر سپاٹے کا مقام، بڑی مارکیٹ اور ہنستا بستا شہر ہے۔ چغرزیٔ کے لوگ جب سواڑی کی رنگینی اور شور غل کو خیر باد کہہ کر قدرتی فضا اور کوہ و دمن کے حسین امتزاج میں کھونے کے لیے اپنے علاقہ چغرزئی کا رُخ کرتے ہیں، تو ان کا پہلا سفری پڑاؤ جہاں وہ مزید سفر کے لیے تازہ دم ہواکرتے ہیں اور سودا سلف لینے کے لیے رکتے ہیں، وہ مقام دیوانہ بابا بازار ہے۔ یہاں گاڑی دس پندرہ منٹ کے لیے ضرور ٹھہرتی ہے اور پھر مسافر مزید سفر کے لیے رختِ سفر باندھ کر رخصت ہوجاتے ہیں۔
دیوانہ بابا بازار میں اُتر کر ایک تو بازار اور علاقہ سے لطف اندوزی کا موقع میسر آتا ہے، دوسرا یہ کہ اُس بزرگ ہستی کے مرقد سے شناسائی بھی ہوتی ہے جس کے نام سے اس علاقہ کے بیشتر باشندے خود ناواقف ہیں۔یہاں آکر آپ کو اس بزرگ کے بارے میں عجیب داستانیں سننے کو ملیں گی جن میں بعض تو اس کے دینی کارناموں سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ یہاں کے لوگوں نے اپنی طرف سے گَڑ کر لاشعوری طور پر ان کی شخصیت کو خواہ مخواہ داغدار بنایا ہے اور اس طرح ان بے ہودہ اور افسانوی خرافات نے کئی حقایق پر پردہ ڈال کر بزرگانِ دین کی شان اور شخصی کردار میں مبالغہ آرائی اور دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔ ان سے اپنی دلی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے بلی نچوڑنے والی حکایت پر عمل کیا ہے۔
دیوانہ بابا جن کا اصل نام جان خان تھا، اس زمانہ کے بزرگ اور ولی اخون درویزہ بابا اور پیر باباؒ کے ہم عصر اور ہم مکتب تھے۔ یہاں کے ایک مقامی بابا کے مطابق ریاستی دور میں یہاں زائرین کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ پنجاب سے آئے ہوئے زائرین کی بھی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ مذکورہ مزار پر نذر و نیاز اور چڑھاوے کی شکل میں پیسوں کی بارش ہوتی رہتی تھی۔ مزار کی حدود میں بھینسیں اور گائیں ذبح کی جاتی تھیں۔ موسمِ بہار میں تو یہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ بہار کی آمد دیوانہ بابا کے باشندوں کے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہ ہوتی تھی۔ بہار ان کی معاشی ترقی اور وارے نیارے ہونے کے لیے ہوا کرتی۔ کیوں کہ یہاں کے بیشتر لوگ دیوانہ بابا کے مزار کے مجاور ہیں۔ سال کے بارہ مہینے بابا کے مجاور نمبر وار مزار کی آمدنی حاصل کرتے ہیں اور اپنی باری کے ایام میں وہ یہاں ڈیرہ لگائے دن رات بیٹھے رہتے ہیں۔ اب چوں کہ ایک تو حالات اور وقتی تقاضے زائرین کے لیے سازگار مواقع فراہم نہیں کر رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ جدید دور اور علمی ذرائع نے لوگوں کے دِلوں سے مزارات کا وہ تقدس کافی حد تک یا تو کم کردیا ہے اور یا بعض لوگوں کے دلوں سے سرے سے مٹا کر رکھ دیا ہے۔ اس لیے اب ادھرزائرین کی ماضی والی بھیڑ رہتی ہے اور نہ یہاں مجاوروں کی وہ دلچسپی اور طمع ہی باقی ہے۔

دیوانہ بابا جن کا اصل نام جان خان تھا، اس زمانہ کے بزرگ اور ولی اخون درویزہ بابا اور پیر باباؒ کے ہم عصر اور ہم مکتب تھے۔

سڑک کی شمالی جانب دیوانہ بابا کا مزار آخری کونے پر واقع ہے اور مزار سے پیوستہ دیوانہ بابا کا پُرانا گاؤں آباد ہے، جو پکی اور کچی آبادی کا ملغوبہ ہے۔ یہ علاقہ بیک وقت معاشی پسماندگی اور آسودگی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ دیوانہ بابا مٹوانی کی پشتون آبادی کا مضافاتی علاقہ اور گاؤں ہے، جہاں بیش تر آبادی دیوانہ بابا کے مجاوروں سے تعلق رکھتی ہے اور اس کی اکثر یت اپنی جائیداد اور مکانات کے مالکانہ حقوق رکھتی ہے لیکن شیخ ملی ویش کے فارمولہ کے تحت مٹوانی پشتونوں کی جائیداد تصور کی جاتی ہے اور یہاں کے لوگ غم اور خوشی کے رسم و رواج میں اُن پشتونوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
دیوانہ بابا میں سکھ برادری کے مستقل مساکن بھی ہیں اور یہ یہاں کا متحرک کاروباری طبقہ تصور کیا جاتا ہے۔ دیوانہ بابا کے علاوہ ضلع بونیر میں سکھ برادری پاچا کلے، چناڑ، غورغشتو، بھائی کلے، چنگلئی، ٹانگوڑہ، کلپانی گنبت وغیرہ میں آباد ہے۔ ضلع بونیر کی تجارتی منڈی میں ان کا اہم رول ہے اور حکومت کے مختلف شعبوں میں ان کی کافی تعداد مختلف عہدوں پر کام کرتی رہی ہے۔ خصوصاً محکمۂ صحت میں تو اس برادری کی کثرت دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی حوالہ سے ان کی اپنی امتیازی پوزیشن اور سیاسی فعال کردار رہا ہے۔
ضلع بونیر کی سرزمین سے سکھ برادری اکثر پورے صوبہ کی اقلیتی نمائندگی کا فرض بھی ادا کرتی ہے۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔