27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے اسی پلیٹ فارم (لفظونہ ڈاٹ کام) پر اپنی گذشتہ تحریر’’27ویں ترمیم، جمہوریت کا نیا امتحان‘‘ میں یہ گزارش کی تھی کہ ترمیم کا مسودہ اگر سرسری طور پر بھی پڑھ لیا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں سب کچھ موجود ہے، سوائے اس کے کہ عوام الناس کو اس سے کوئی حقیقی فائدہ پہنچتا ہو۔ یہ ترمیم بھی بہ ظاہر اُسی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے، جو عوام کی بہ جائے اشرافیہ کے کچھ مخصوص گروہوں ہی کے لیے سودمند ہے۔
یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ریاست کے تیسرے ستون یعنی اعلا عدلیہ کو لگام دینے کی بھرپور سعی کی گئی ہے۔ ریاست کے دونوں ستون یعنی مقننہ اور انتظامیہ اس کوشش میں خاصی حد تک کام یاب بھی نظر آتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ایسی صورتِ حال پیدا ہی کیوں ہوئی؟
پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ بڑی تلخ اور پُرآشوب رہی ہے۔ غیر منتخب آمروں نے ہمیشہ عوام کے حقِ حکم رانی کو پسِ پشت ڈالا، مگر اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو آئینی جواز فراہم کرنے کا کام بارہا اعلا عدلیہ میں براجمان ججوں نے سرانجام دیا، جن کا بنیادی فریضہ آئین کا تحفظ تھا۔ وقت گزرتا گیا اور یہی روش اعلا عدلیہ کے بعض حلقوں میں اس طرح رچ بس گئی کہ ہر آمریت کے بعد جب جب عوامی نمایندوں کو حکومت ملی، تو اُنھیں بھی ڈھنگ سے قانون سازی کرنے دی گئی اور نہ انتظامی اُمور چلانے دیے گئے۔ عدلیہ بار بار فعال کردار کے نام پر انتظامیہ میں مداخلت کرتی رہی اور مقننہ کے اختیارات کو سکیڑتی رہی۔
70 برس سے زائد عرصے پر مشتمل اس تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے مختلف گروہ کبھی سامنے کبھی پس منظر میں باہم حصولِ اقتدار کی کش مہ کش میں مصروف رہے۔ کبھی جج صاحبان نے طاقت ور حلقوں کی وفاداری نبھائی، کبھی عوامی نمایندوں سے قربت اختیار کی۔ اسی کھیل کے نتیجے میں کسی منتخب وزیرِاعظم کو پھانسی گھاٹ تک بھیجا گیا، کسی کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا، کسی نے جَلا وطنی کا دُکھ جھیلا، تو کسی نے بنا ثبوت جیلوں میں سال ہا سال کاٹے۔
آج بھی اگر کوئی یہ سمجھے کہ ہم واقعی آئین و قانون کی حکم رانی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں، تو یہ محض خام خیالی ہے۔ موجودہ حالات میں ہونے والی ہر بڑی آئینی و قانونی پیش رفت بھی اُسی وقت ممکن ہوتی ہے، جب طاقت ور حلقوں کی رضا شامل ہو۔ البتہ ایک نمایاں فرق یہ ضرور دکھائی دیتا ہے کہ اس بار اقتدار کی کش مہ کش میں مقننہ اور انتظامیہ ایک جانب کھڑی نظر آتی ہیں، جب کہ عدلیہ میں موجود وہ عناصر جو ماضی کے طاقت ور کھلاڑیوں کے قریب سمجھے جاتے تھے، دوسری جانب جمع ہیں۔
27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے فوری بعد سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس مرزا نے استعفے دے دیے اور کچھ مزید ججوں کے استعفوں کی بازگشت ہے۔ اب کچھ سیاسی حلقے ان استعفوں کو ’’انقلاب‘‘ کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر عدلیہ کے مزید جج بھی مستعفی ہوگئے، تو عدالتی نظام مفلوج ہوجائے گا اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑ جائیں گے۔ حتیٰ کہ ترمیم واپس لینا بھی پڑے گی۔ کاش! جسٹس اطہر من اللہ، اپنے سینئر جج شوکت صدیقی پر ہونے والے ظلم کا فائدہ اُٹھا کر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بننے کی بہ جائے اُسی وقت استعفا دیتے، تو اس کو انقلابی اقدام کہا جاسکتا تھا…… لیکن یہ سب اندازے محض خواہشات ہیں، زمینی حقائق نہیں۔ پاکستان کا عدالتی نظام تو پہلے ہی شدید گراوٹ کا شکار ہے۔ گذشتہ برس عالمی درجہ بندی میں ہمارا نظامِِ انصاف دنیا کے 137ویں نمبر پر کھڑا پایا گیا۔ ایسے نظام کے بارے میں یہ سوچنا کہ چند استعفوں سے وہ مکمل طور پر رُک جائے گا اور حکومت گھبرا کر پسپا ہوجائے گی، زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر بالفرض اعلا عدلیہ کے تمام جج بھی استعفا دے کر گھروں کو چلے جائیں، یا کسی انقلابی تحریک کا حصہ بن کر سڑکوں پر آجائیں اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی اُن کے ساتھ کھڑی ہوجائیں، تب بھی کوئی بڑا طوفان نہیں اُٹھے گا۔ وجہ صاف ہے، اِس وقت انتظامیہ اور مقننہ ایک پیج پر ہیں اور دونوں نے عدلیہ کے مقابل اتحاد کر رکھا ہے۔ ایسے میں عدالتوں کے خالی ہونے پر نئے ججوں کا تقرر کوئی مشکل مرحلہ نہ ہوگا۔
اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ کوئی نئی وکلا تحریک جنم لے گی، تو وہ خوابِ خرگوش سے جاگ جائے۔ جہاں بہت سے وکلا اُصولی موقف کی پروا کرسکتے ہیں، وہاں ایک تعداد ایسی ہوگی، جو مستقبل میں جج بننے کی خواہش میں پہلے ہی متحرک اور لابنگ شروع کرچکی ہوگی۔ جب مقننہ اور انتظامیہ دونوں بے مثال ہم آہنگی کے ساتھ عدلیہ میں تبدیلیاں لانے کے لیے کمربستہ ہوں، تو پھر مزاحمت کے امکانات بہت محدود رہ جاتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی ایسا انقلاب آسکتا ہے جس کی بنیاد ادارہ جاتی مزاحمت یا نظریاتی اُصولوں پر ہو؟ ہماری تاریخ اس کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ یہاں فیصلے اس بنیاد پر ہوتے ہیں کہ کس وقت کون طاقت ور ہے، کون کس کے ساتھ کھڑا ہے اور کس کو کس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ جب تک طاقت کا یہ غیر مساوی ڈھانچا برقرار ہے، استعفے انقلاب لائیں گے اور نہ ترمیمیں عوام کے حق میں کوئی بنیادی تبدیلی ہی لا پائیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










