انصاف: ریاست کی بنیاد اور قوم کی بقا

Blogger Muhammad Ishaq Zahid

دنیا کے نقشے پر ترقی یافتہ ممالک کو اگر بہ غور دیکھا جائے، تو ایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اُن قوموں کی اصل قوت اُن کی فوجی طاقت، اقتصادی استحکام یا سائنسی ایجادات نہیں، بل کہ عدل و انصاف پر مبنی نظامِ ریاست ہے۔ وہ اقوام جنھوں نے انصاف کو اپنی قومی زندگی کا محور بنایا، وہی ترقی اور وقار کی بلندیوں تک پہنچی ہیں۔ جہاں انصاف ناپید ہو، وہاں عمارتیں بلند ہو سکتی ہیں، مگر قومیں کبھی بلند نہیں ہوتیں۔
انصاف صرف عدالتوں یا قاضیوں کا معاملہ نہیں، بل کہ یہ ریاست اور شہری کے درمیان اعتماد کی بنیاد ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ایک عام شہری کو یقین ہوتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ ناانصافی ہوجائے، تو وہ بغیر سفارش، بغیر طاقت اور بغیر رشوت کے اپنا حق حاصل کر سکتا ہے۔ یہی یقین ریاست پر اعتماد پیدا کرتا ہے اور یہی اعتماد قوموں کی بقا اور استحکام کی ضمانت بنتا ہے۔
اسلامی تاریخ انصاف کے سنہری اُصولوں سے مزین ہے۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب مسندِ خلافت سنبھالی تو فرمایا: تم میں سے ہر کم زور میرے نزدیک طاقت ور ہے، جب تک میں اس کا حق اسے دلوا نہ دوں، اور ہر طاقت ور میرے نزدیک کم زور ہے، جب تک میں اُس سے کم زور کا حق نہ لے لوں۔
یہ وہ نظریہ ہے جس نے اسلامی ریاست کو انصاف کی مثالی سلطنت بنا دیا۔ خلفائے راشدین کے دور میں حکم رانوں کے دروازے عوام پر کھلے تھے، قاضی طاقت وروں کے خلاف بھی فیصلہ کرنے میں آزاد تھے اور قانون سب کے لیے برابر تھا۔ یہی وہ دور تھا، جب ریاست پر عوام کا غیر متزلزل اعتماد قائم ہوا۔
بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ اس عدل و انصاف کے تصور سے بہت دور جا چکا ہے۔ عدالتوں کے دروازے اگرچہ سب کے لیے کھلے ہیں، مگر انصاف تک رسائی صرف اُن کے لیے ممکن ہے، جو دولت اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ مقدمات برسوں لٹکے رہتے ہیں، وکلا کی بھاری فیسیں غریب کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں اور انصاف کا حصول ایک خواب بن چکا ہے ۔
غریب کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اب انصاف مانگنے عدالت نہیں جاتا، بل کہ اپنے علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے، وڈیرا، نواب یا چوہدری کے پاس جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انصاف اب قانون کی کتابوں میں بند ہے اور حقیقی زندگی میں طاقت ور ہی حق اور قانون دونوں کا مالک ہے۔ یہی احساس ریاست پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کر دیتا ہے۔
جب عوام کو یقین ہوتا ہے کہ اگر اُن کے ساتھ ظلم یا ناانصافی ہو، تو عدالت اُنھیں برابر کا حق دے گی، چاہے مخالف کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو۔ یہی یقین عوام کے دلوں میں ریاست پر اعتماد پیدا کرتا ہے۔ جب شہریوں کو انصاف سستا، آسان اور تیز رفتار ملتا ہے، تو وہ قانون کا احترام کرتے ہیں، کرپشن کم ہوتی ہے اور معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ اس کے برعکس، جہاں انصاف مہنگا اور نایاب ہو، وہاں عوام کا ریاست پر سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور ملک پس ماندگی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ریاست اُس وقت مضبوط ہوتی ہے، جب قانون کم زور کے ساتھ کھڑا ہو۔ اگر ہم پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے نظامِ انصاف میں عملی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ مقدمات کے فیصلے مقررہ مدت میں یقینی بنائے جائیں۔ غریبوں کے لیے مفت قانونی معاونت کا نظام فعال کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون کے سامنے سب کو برابر رکھا جائے، خواہ وہ حاکمِ وقت ہو یا عام شہری۔ ریاستِ مدینہ کا ماڈل اُسی وقت قابلِ تقلید بن سکتا ہے، جب انصاف دروازے پر دستک دے ، عوام نہ دیں۔
ترقی یافتہ اقوام کی ترقی کا راز اُن کی سڑکوں، عمارتوں یا کرنسی میں نہیں، بل کہ انصاف پر قائم عوامی اعتماد میں پوشیدہ ہے۔ جب ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف کرتی ہے، تو شہری ریاست کے وفادار بن جاتے ہیں۔
پاکستان کے لیے بھی ترقی کا یہی واحد راستہ ہے کہ ایسا نظامِ عدل قائم کیا جائے، جو ہر شہری کو اُس کا حق دلوائے، چاہے وہ کتنی ہی کم زور آواز کیوں نہ ہو۔ جس دن ہمارے ملک میں ایک عام آدمی یقین سے کہے کہ ’’مجھے انصاف ملے گا۔ کیوں کہ یہ ریاست میری محافظ ہے۔‘‘ اُسی دن پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ یہ حکومتِ وقت پر بھی فرض ہے کہ وہ ایسے قوانین مرتب کرے، جو انصاف کو عوام کی دہلیز تک پہنچا دیں۔ کیوں کہ انصاف میں تاخیر دراصل ظلم کی ایک صورت ہے۔ عوام کو سستا، بروقت انصاف فراہم کرنے کے لیے موثر قانون سازی کرے۔ مقدمات جلد نمٹائے جائیں اور ہر شہری کو یقین ہو کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف عوام کے اعتماد کو بہ حال کرے گا، بل کہ ملک کی ترقی، امن اور خوش حالی کی راہ بھی ہم وار کرے گا۔
ترقی یافتہ ممالک کی مثال ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جہاں انصاف سب کے لیے برابر اور فوری ہو، وہاں ریاست مضبوط اور معاشرہ خوش حال رہتا ہے۔ کوئی بھی ریاست اُس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی، جب تک حکومت اپنے شہریوں کو بروقت اور سستا انصاف دینے کے لیے قانون سازی کو اولین ترجیح نہ بنائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے