ٹڈاپ کیس کیا ہے؟

Blogger Rohail Akbar

ویسے پاکستان میں مالی بدعنوانی کی کہانیاں کوئی نئی بات نہیں، مگر کچھ اسکینڈل ایسے ہوتے ہیں، جو صرف خبروں تک محدود نہیں رہتے، بل کہ ملک کے معاشی، قانونی اور سیاسی نظام کی اصلیت کو ننگا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ’’ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان‘‘ (TDAP) اسکینڈل انھی افسوس ناک واقعات میں سے ایک ہے، جس میں اربوں روپے کی قومی دولت جعلی کمپنیوں، کرپٹ سرکاری افسران اور سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے ضائع ہوئی۔ ’’سبسڈی‘‘ کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ آج کی کہانی نہیں، بل کہ پرانا قصہ ہے۔ کبھی چینی، تو کبھی گندم پر اربوں روپے کی سبسڈی دی گئی۔
’’سبسڈی‘‘ کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ اس کے لیے ’’ٹڈاپ کیس‘‘ کو سمجھنا ضروری ہے کہ یہ دراصل ہے کیا؟
’’ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان‘‘ (ٹڈاپ) ایک وفاقی ادارہ ہے، جس کا بنیادی مقصد پاکستانی مصنوعات کی بیرونِ ملک برآمدات کو فروغ دینا ہے۔ یہ ادارہ برآمدکنندگان کو مختلف ’’سبسڈیز‘‘ اور ’’ری بیٹس‘‘ (Rebates) دیتا ہے، تاکہ ان کے کاروبار کو سپورٹ ملے…… لیکن بدقسمتی سے 2008ء سے 2013ء کے درمیان یہی ادارہ کرپشن کا گڑھ بن گیا۔ درجنوں جعلی کمپنیاں رجسٹر کی گئیں، جنھوں نے ’’ٹڈاپ‘‘ سے برآمدی سبسڈی حاصل کرنے کے لیے جعلی انوائسز اور دستاویزات جمع کروائیں۔ ان کمپنیوں کا نہ کوئی وجود تھا، نہ انھوں نے کبھی کوئی ایکسپورٹ ہی کی، لیکن پھر بھی انھیں اربوں روپے کی سبسڈی جاری کی گئی۔
یہ سب کچھ ’’ٹڈاپ‘‘ کے اندر بیٹھے افسران اور ان کے ’’سیاسی سرپرستوں‘‘ کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہ تھا۔
اس اسکینڈل کی سب سے بڑی حیران کن بات یہ تھی کہ اس میں ملک کے سابق وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیرِ تجارت مخدوم امین فہیم (مرحوم) کے نام بھی سامنے آئے۔
امین فہیم (مرحوم) پر الزام تھا کہ اُنھوں نے کرپٹ افسران کی تعیناتیاں کیں اور ان کے ذریعے جعلی ادائیاں کروائیں، جب کہ سید یوسف رضا گیلانی پر الزام تھا کہ اُنھوں نے منظورِ نظر افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کیا اور ادارے میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں پر آنکھیں بند رکھیں، جس پر نیب اور ایف آئی اے نے دونوں راہ نماؤں کے خلاف درجنوں مقدمات درج کیے، جب کہ ’’ٹڈاپ‘‘ کے کئی افسران کو گرفتار بھی کیا گیا، لیکن حقیقت میں اس اسکینڈل پر نیب کی کارروائیاں سست، عدالتی نظام کم زور اور سیاسی دباو شدید رہا۔ کئی مقدمات زیرِ التوا رہے۔ کچھ افسران نے پلی بارگین کے ذریعے رقم واپس کر دی، لیکن اصل مجرمان کا تعین ہوسکا، نہ کوئی گرفتاری ہی عمل میں لائی گئی۔ وہ آج بھی آزاد ہیں، جس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا پاکستان میں کسی طاقت ور کو کرپشن پر واقعی سزا ملتی ہے…… یا صرف چھوٹے افسر، کلرک اور درمیانے درجے کے افراد ہی قربانی کا بکرا بنتے ہیں؟
’’ٹڈاپ اسکینڈل‘‘ کئی تلخ حقائق سے پردہ اُٹھاتا ہے کہ اداروں میں سیاسی مداخلت کرپشن کی بنیاد ہے، جس کے بعد ’’ری بیٹ‘‘ اور ’’سبسڈی‘‘ جیسے فلاحی اقدامات کو شفاف نظام کے بغیر کرپشن کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے۔ لوٹ مار کرنے والے اسی رقم سے کچھ نہ کچھ ادا کرکے پاک صاف ہوجاتے ہیں اور روٹی چوری کرنے والے کو پُرتشدد کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے تھانے اس بات کی دلیل ہیں کہ ہمارا نظامِ انصاف طاقت ور کے لیے الگ اور کم زور کے لیے الگ ہے۔ پاکستان میں احتساب صرف نعروں میں ہے۔ عملی طور پر بے اثر ہے۔
’’ٹڈاپ اسکینڈل‘‘ پاکستانی عوام کے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے، جو وہ اپنے اداروں سے وابستہ کرتے ہیں۔ اگر ہم واقعی ’’شفاف پاکستان‘‘ چاہتے ہیں، تو محض نعرے کافی نہیں، بل کہ ہمیں اداروں کو آزاد، عدالتی نظام کو تیز اور سیاسی اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہوگا۔ ورنہ ہر نیا دن کسی نئے اسکینڈل کے ساتھ طلوع ہوگا اور ہر اسکینڈل تاریخ کا حصہ بنتا جائے گا۔ وہ بھی کسی سزا اور انجام کے بغیر۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاید ایسے اسکینڈل مخالفین کو دبانے اور توڑنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ کیوں کہ جب بھی کوئی حکومت میں ہوتا ہے، تو وہ بڑے زور و شور سے جانے والوں کے خلاف احتساب کے نام پر مقدمات درج کرواتا ہے۔ بے شک پاکستان میں ’’احتساب‘‘ ایک ایسا نعرہ ہے جو ہر دور میں زور و شور سے لگایا گیا، مگر انجام اکثر سیاسی انتقام، تاخیری حربے، یا خاموش سمجھوتوں پر ہوا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے