دریائے سوات کا مستقبل (سائنسی نقطۂ نظر)

Blogger Tauseef Ahmad Khan

اگر دیکھا جائے، تو آج کل دریائے سوات میں تجاوزات کا مسئلہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی بحث میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے…… مگر بدقسمتی سے عوام اس سنگین مسئلے کی اصل حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں۔ کوئی بھی شخص اس پر سائنسی بنیادوں پر غور نہیں کرتا، نہ میڈیا یا مقامی صحافی اس مسئلے کو درست زاویے سے دیکھنے کی زحمت ہی کرتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل لوکل میڈیا کی ترجیحات میں صرف ریٹنگ حاصل کرنا سب سے بڑی ترجیح ہے۔ اس کی توجہ محض معاشرے کے مخصوص طبقے کو خوش رکھنے اور بھرپور کمائی پر مرکوز ہے۔
موجودہ تجاوزات پر جاری بحث و مباحثے کو اگر دیکھا جائے، تو ہم عمومی طور پر جذباتی بیانیے یا وقتی واقعات پر توجہ تو دیتے ہیں، جب کہ دریائے سوات کے سائنسی، ماحولیاتی اور طویل المدتی خطرات پر سنجیدگی سے غور کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں نے اس مسئلے پر قلم آزمائی کا سوچا کہ عوام کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کیا جا سکے۔
قارئین! اس تحریر میں، مَیں دریائے سوات سے متعلق اہم حقائق اور مستقبل کے خطرات کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا، جب کہ اگلی تحریر میں ’’تجاوزات‘‘، ’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ اور ’’عوامی مطالبات‘‘ کا تفصیلی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
اگر دیکھا جائے، تو دریائے سوات کا آغاز ہندو کش کے پہاڑوں سے ہوتا ہے، جہاں دریائے اُوشو اور دریائے اُتروڑ آپس میں مل کر دریائے سوات کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ دریا، کالام سے نکل کر بحرین، مدین، خوازہ خیلہ، فضاگٹ، مینگورہ اور کبل سے ہوتا ہوا چکدرہ تک پہنچتا ہے، جہاں یہ دریائے پنج کوڑہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے پنج کوڑہ آگے چل کر دریائے کابل میں جا ملتا ہے۔
اس پورے راستے میں 20 سے زائد ندی نالے اور پہاڑی چشمے دریائے سوات میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض کی چوڑائی 5 میٹر سے لے کر 50 میٹر تک ہوتی ہے۔ یہ نالے برف باری، بارش یا لینڈ سلائیڈنگ کے دوران میں شدید بہاو کے ساتھ دریا کے پانی کے حجم میں نمایاں اضافہ کرتے ہیں۔
ان ندی نالوں میں گبین جبہ، مٹلتان، اوشو، گاٹ، مدین، بحرین، بشیگرام، خوازہ خیلہ، سیدو شریف، کبل اور بریکوٹ شامل ہیں۔ بعض بڑے نالے جیسے بشیگرام نالہ کو ’’ذیلی دریا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان تمام ندی نالوں کا پانی مل کر دریا کو وسیع اور بے قابو بناتا ہے، جو ایک طرح سے مقامی زراعت اور معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔
مگر اب دریائے سوات ایک ماحولیاتی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ اس کے پانی کا بڑا حصہ برفانی گلیشیئرز کے پگھلنے سے آتا ہے۔ "ICIMOD” کے مطابق، پاکستان کے شمالی علاقوں میں تقریباً 1200 سے زائد گلیشیئر موجود ہیں۔ ہر سال اُن کے حجم میں اوسطاً 1.5 فی صد کمی واقع ہو رہی ہے۔ گذشتہ دہائی کے دوران میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں 10 سے 15 فی صد تک اضافہ ہوا ہے…… خاص طور پر اُن گلیشیئرز میں جو 6000 فٹ سے کم بلندی پر واقع ہیں، جہاں گلیشیئر کی پگھلنے کی شرح 20 فی صد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ یہی عمل ہر سال دریائے سوات کے بہاو میں اضافہ کر رہا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق، مون سون کے ہر سیزن میں دریا کے بہاو میں گذشتہ 10 سال کے مقابلے میں تقریباً 15 فی صد اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔ 2022ء میں آنے والا تباہ کن سیلاب اس کی واضح مثال ہے، جس میں دریا کا بہاو 3 لاکھ 22 ہزار کیوسک سے تجاوز کرگیا تھا۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا، تو مستقبل میں 5 لاکھ کیوسک سے زائد پانی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا، جو شدید تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، 2022ء کے سیلاب میں 30 سے 40 فی صد پانی صرف گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے آیا، جب کہ باقی پانی طوفانی بارشوں اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے یعنی "GLOF” سے آیا۔
’’گلوف‘‘ (GLOF) وہ عمل ہے، جس میں برفانی جھیلیں زیادہ درجۂ حرارت یا برفانی تودے گرنے سے زیادہ پریشر میں آکر اچانک پھٹ جاتی ہیں، جس سے اچانک شدید ’’فلیش فلڈ‘‘ آ جاتا ہے، جو کم سے کم وقت میں بڑی سے بڑی تباہی کا باعث بنتا ہے ۔
پاکستان میں 3 ہزار سے زائد گلیشیائی جھیلیں موجود ہیں، جن میں سے صرف سوات ریور بیسن میں سو سے زائد ہیں۔ ان میں سے 10 سے پندرہ ایسی ہیں جو کسی بھی وقت ’’گلوف‘‘ کا سبب بن سکتی ہیں۔ سوات کے گلیشیئرز کا مجموعی رقبہ 250 سے 300 مربع کلومیٹر ہے اور ان کی اوسط موٹائی تقریباً 40 میٹر ہے۔ اگر یہ مکمل طور پر پگھل جائیں، تو تقریباً 9 ارب کیوبک میٹر پانی دریائے سوات میں خارج ہوگا، جو کہ تقریباً 31 ارب کیوسک کے برابر ہے۔ اگر یہ تمام گلیشیئرز اگلے 30 سال میں پگھل گئے، تو ہر سال اوسطاً 3 لاکھ 36 ہزار کیوسک کے برابر پانی دریا میں شامل ہوگا،جو کہ اونچے درجے کے سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔
دوسری طرف ہر سال گرمی اور مون سون میں اچانک بارشوں کی شدت بڑھ رہی ہے، اور ہر نیا سیلاب پچھلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اُن 5 ممالک میں شامل ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
قارئین! یہ تمام اعداد و شمار صرف اس لیے پیش کیے گئے ہیں، تاکہ عوام اور حکومتی ادارے حقیقت کا ادراک کریں کہ اگر بروقت منصوبہ بندی نہ کی گئی، تو دریائے سوات تباہ کن صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اس کے لیے دریا کے کناروں پر مضبوط پشتے اور فلڈ پروٹیکشن والز تعمیر کرنا ناگزیر ہیں، جو 5 لاکھ کیوسک تک دباو برداشت کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دریا کے اطراف سے تجاوزات کا خاتمہ اور اس کی چوڑائی میں اضافہ ضروری ہے، تاکہ پشتوں پر دباو کم ہو۔
بدقسمتی سے آج تک اس حوالے سے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ ہر سال کی تباہی کے بعد ہم صرف افسوس اور بیانات تک محدود ہوجاتے ہیں…… لیکن اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف باتوں پر اکتفا نہ کریں، بل کہ سائنسی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کریں۔ ورنہ ہر سال سیکڑوں مقامی باشندے اور سیاح اس دریا کی بے رحم موجوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

One Response

  1. توصیف احمد خان — علم، کردار اور شعور کی روشن مثال

    جب بھی پاکستان میں شعور، تحقیق اور کردار کی بات کی جائے گی، توصیف احمد خان کا نام ہمیشہ عزت اور فخر کے ساتھ لیا جائے گا۔ وہ نہ صرف ایک باصلاحیت محقق اور بے مثال قلمکار ہیں بلکہ ایک جرات مند، بااخلاق اور بیدار مغز نوجوان بھی ہیں جو اپنے الفاظ، خیالات اور عمل کے ذریعے قوم کے دل و دماغ کو جگا رہے ہیں۔

    توصیف احمد خان کی تحریریں محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ علم، سچائی اور بصیرت کا چراغ ہیں۔ ان کی ہر تحریر تحقیق کی گہرائی، فہم و فراست کی وسعت اور حب الوطنی کی خوشبو سے لبریز ہوتی ہے۔ انہوں نے معاشرے کے سلگتے مسائل کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ ان کا ادراک پیدا کر کے نئی نسل کو سوچنے، سمجھنے اور سوال اٹھانے کا سلیقہ سکھایا ہے۔

    بحیثیت ایک سوشل کارکن، وہ مظلوموں کی آواز، کمزوروں کا سہارا اور سچائی کا عَلمبردار ہیں۔ ان کی بے باک آواز ظالم قوتوں کے خلاف ایک گونج دار للکار ہے۔ ان کی موجودگی اور سوچ نے نوجوانوں میں نیا جوش، نئی سوچ اور امید کی ایک کرن پیدا کی ہے۔

    بطور فرد، توصیف خان ایک انتہائی باکردار، باخوداری اور اعلیٰ ظرف انسان ہیں۔ ان کی شخصیت میں انکساری، دیانت اور علم کی روشنی جھلکتی ہے۔ وہ نہ صرف لکھتے ہیں بلکہ خود ایک مکمل نظریہ ہیں۔ ان سے ملنے والا ہر شخص یہ گواہی دیتا ہے کہ خان صاحب صرف ایک دانشور نہیں بلکہ ایک مکمل انسان اور رہنما ہیں۔

    میں، پروفیسر خواجہ زاہد حسین، ذاتی طور پر توصیف احمد خان کے بلند کردار، فکری پاکیزگی اور وطن سے بے پناہ محبت کا گواہ ہوں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرا اُن سے تعلق ہے اور ان جیسی شخصیت کے ساتھ وقت گزارنے کا شرف مجھے حاصل ہوا۔

    اللہ تعالیٰ توصیف احمد خان کو صحت، درازیٔ عمر، خوشیوں اور مزید کامیابیوں سے نوازے۔ بلاشبہ وہ اس قوم کے لیے ایک نعمت، ایک روشنی، اور ایک سمت ہیں۔ آج کے نوجوانوں کو ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے تاکہ ایک باشعور، مضبوط اور باکردار پاکستان کی تشکیل ممکن ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے