سیاسی رواداری وقت کی اہم ترین ضرورت

Blogger Syed Fayaz Hussain Gailani

ہمارے ملک میں ہمارے اربابِ اختیار نے یقینا کچھ بہتر اور کچھ بہت بہتر کام کیے، لیکن اس کے ساتھ کچھ برے اور کچھ بہت ہی برے کام بھی کیے۔ برے کاموں میں سے جو بہت برا کام تھا، وہ ہے ’’سیاسی انارکی۔‘‘
بے شک مذہبی شدت پسندی زیادہ خطرناک ہے، لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ مذہبی شدت پسندی خطرناک تر ہونے کے باجود بھی اپنے اندر دیر پا اثر نہیں رکھتی اور وقت کے ساتھ اس کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنا ہمیشہ کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر جس طرح کی مذہبی منافرت 80ء کی دہائی میں تھی، اُس طرح کی نفرت اب نہیں، لیکن سیاسی انارکی وہ جراثیم ہے، جو وقت کے ساتھ اپنے طریقۂ کار کو بدل بدل کر معاشرے میں کوڑھ بنتی جاتی ہے۔
دوسری بات، سیاسی انارکی اس وجہ سے بھی زیادہ خطرناک تصور کی جاتی ہے کہ یہ اپنے مقاصد کے لیے مذہب، معاشرتی اقدار، ثقافت، لسانیت حتی کہ تاریخ کو بھی مکمل شدت سے استعمال کرتی ہے۔ اس طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کو ہمیشہ سے منفی بنیادوں اور غلط نیت سے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی اس کا مقصد خود کو بہتر اور اہل ثابت کرکے سیاسی کام یابیاں لینا نہیں ہوتا، بل کہ اس کا مقصد کچھ خاص گروہ اور سیاسی شخصیات کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ ویسے تو جب سے ملک بنا ہے، اس کو استعمال کیا جاتا رہا ۔ تحریکِ پاکستان کی قرارداد پیش کرنے والے مولوی فضل الحق، قائد اعظم کی بہن مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح تک کو غدار ثابت کرنے کی کوشش ہوئی، لیکن تب چوں کہ اسٹیبلشمنٹ بہ راہِ راست فریق تھی، اس وجہ سے اس کے اثرات کچھ خاص نہیں ہوئے، لیکن 70ء کے عشرے میں اسٹیبلشمنٹ نے پس منظر میں رہ کر اپنے خاص مقاصد کے لیے اس کو استعمال کرنا شروع کیا اور ماحول ایسا بنا دیا گیا کہ بہ ظاہر سیاست دان بہ مقابلہ سیاست دان نظر آتے تھے کہ بہ ہرحال ایک طرف کی ڈوریاں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں رہیں۔
مَیں تاریخ کے ایک ادنا طالب علم کی حیثیت سے یہ جانتا ہوں کہ 70ء کے عشرے میں ’’این اے پی‘‘ کے خلاف غداری کا ریفرنس ہو یا بلوچستان میں فوجی آپریشن، یہ سب اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی تھی اور سول حکومت بہ طور چارہ استعمال ہوئی۔ مثال کے طور پر سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’حقائق اور افواہ‘‘ میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ ان کو بتایا گیا کہ بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلا عطاء ﷲ مینگل کا بیٹا غائب ہوگیا اور اس کا الزام بھٹو حکومت پر لگایا گیا۔ جب وزیرِ اعظم نے اس پر تحقیق کی، تو معلوم ہوا کہ وہ نوجوان قومی سلامتی کے اداروں سے مارا گیا اور جب بھٹو نے پوچھا کہ اس کی لاش کہاں ہے؟ تو بتایا گیا کہ ہم نے کسی غیر معروف جگہ دفنا دی ہے۔ جب وزیرِ اعظم نے کہا کہ اب اس کا حل کیا ہے؟ تو وزیرِاعظم کو یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ کَہ دیں کہ وہ لڑکا افغانستان بھاگ گیا ہے۔ یوں سالوں تک بین المقابل سیاسی قوتوں کے درمیان ایک نفرت کی فضا بنی رہی۔
اسی طرح جب بھٹو صاحب کے خلاف ’’پی این اے‘‘ کی تحریک چلی اور حکومت نے مذکرات کا ڈول ڈالا، تو یہ شرط سامنے آئی کہ اول حیدر آباد ٹریبونل کا خاتمہ کرکے ولی خان سمیت ’’اے این پی‘‘ کے راہ نماؤں کو بری کیا جائے، لیکن اس پر اسٹیبلشمنٹ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا، مگر جب ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا، تو پہلا کام یہی کیا کہ حیدر آباد ٹریبونل کو ختم کیا گیا اور اس کا الزام بھٹو حکومت کے انتقامی رویے پر لگایا گیا…… لیکن اس سیاسی انارکی کی انتہا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے شروع ہوئی۔ ضیاء الحق نے کمال چالاکی سے اُس دور کی ’’پی این اے‘‘ کی قیادت کو کابینہ میں شامل رکھا اور جب بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا، تو یہ خبر بہت اہتمام سے میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی کہ کابینہ کی مرضی سے صدر نے دنیا بھر سے آنے والی رحم کی اپیلوں کو مسترد کیا ہے۔
اس سے پہلے یہ سیاسی انارکی کچھ خاص علاقوں تک رہی، لیکن بھٹو کی پھانسی کے بعد یہ خیبر سے کراچی تک ہر صوبے، ہر مسلک اور ہر قوم میں سرایت کرگئی۔ ایک طبقہ عاشقانِ بھٹو بنا اور اس کو ہر بھٹو مخالف ’’ظالم‘‘ نظر آیا۔ دوسرا طبقہ بھٹو کی پھانسی کی حمایت میں کھڑا ہوگیا اور اس نے ہر بھٹو حمایتی کو ’’غدارِ ملک‘‘، ’’بانیِ بنگلہ دیش‘‘ اور ’’لادین‘‘ سمجھ لیا۔ بے شک بھٹو کی سزائے موت ہمارے معاشرتی نظام میں باعثِ نفرت بنی اور قوم تقسیم ہوئی۔
پھر تاریخ آگے چلی اور عوامی سطح پر سیاسی منافرت کی بنیاد سنہ 80ء کے آخری عشرے میں رکھی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد اور ایک بھائی کی غیر فطری موت کے بعد عوام میں آئیں اور اُن کا اول نعرہ ہی ’’ضیا جاوے‘‘ بنا۔ پھر پی پی کے کارکنان کا یہ نعرہ بہت مقبول ہوا کہ ’’بینظیر آئے گی، انتقام لائے گی۔‘‘ ویسے بھی اس بات سے قطع نظر اسٹیبلشمنٹ میں ضیاء الحق کا نظریاتی حریف طبقہ موجود تھا کہ جو بھٹو کی بیٹی سے شدید خوف زدہ تھا۔ سو اس طبقے نے بینظیر کی سیاسی طاقت کو محدود کرنے کے لیے ملک بھر سے چن چن کر بھٹو مخالف متحد کیے اور ایک فضا بنا دی کہ ایک طرف غدارِ وطن ہیں اور ایک طرف محب وطن۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں یہ انارکی، سیاست سے ہٹ کر ذاتی مخاصمت پر آگئی، لیکن مشرف کے مارشل لا نے سیاسی قوتوں کو ایک موقع فراہم کر دیا اور ماضی کی تمام تلخیوں کے باجود جناب نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو پہلے اے آر ڈی اور پھر سی اُو ڈی میں ایک معقول ایجنڈے پر متفق ہوگئے۔ پہلی مرتبہ ملک سیاسی انارکی سے استحکام کی جانب چلنا شروع ہوا۔ اسی سیاسی میچورٹی اور دانش کی وجہ سے 18ویں ترمیم ہوئی۔ صوبائی خود مختاری کا حصول ممکن ہوا۔ اختیارات کو نچلی سطح پر لایا گیا۔ ہر ادارہ اور شخص کے احتساب کی بات شروع ہوگئی۔ حتی کہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کو پارلیمنٹ میں لایا گیا، لیکن اسٹیبلشمنٹ نے نیا طریقہ اختیار کیا اور ایک نئی سیاسی قیادت کو مقبول بنوایا گیا۔
اب چوں کہ اُس وقت سیاست ’’پرو بھٹو‘‘ اور ’’اینٹی بھٹو‘‘ میں تقسیم تھی، سو ’’پرو بھٹو‘‘ پیپلز پارٹی اور اینٹی بھٹو نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوگئے، جب کہ ایم کیو ایم، اے این پی اور کچھ مذہبی جماعتیں ایک خاص طبقہ میں محدود ووٹ بنک کے ساتھ موجود تھیں۔ سو طاقت ور حلقوں نے اس نئی قیادت کے لیے اُس طبقے کو استعمال کیا کہ جو اول دن سے ہی سیاست کو گالی سمجھتا تھا۔ یہ طبقہ خالصتاً یا تو پروفیشنز پر مشتمل تھا کہ جن کو ہم نے ہمیشہ سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری ’’ٹائی مافیا‘‘ ہی سمجھا…… یعنی خوش لباس سوٹ اور لازمی خوب صورت ٹائی۔ دوسرا الیٹ کلاس کا ممی ڈیڈی نوجوان، جن کو ہم ’’بحریہ کلاس‘‘ کہتے ہیں۔ اب ان کو متاثر کرنے کے لیے صرف ایک ہی نعرہ باقی تھا کہ موجودہ سیاسی قیادتوں نے ملک کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ سب چور اور ڈاکو ہیں۔ اب بس آخری امید اور حل صرف ’’تحریکِ انصاف‘‘ اور ’’عمران خان‘‘ ہیں۔ اس کے بعد میڈیا، خاص کر سوشل میڈیا کو بہت چالاکی سے استعمال کرکے اپر مڈل کلاس کی خواتین اور نوجوانوں کو بھی راغب کرلیا گیا، مگر اُس وقت کے طاقت ور دانش وروں کو یہ احساس بالکل نہ تھا کہ وہ کس طرح کی آگ لگا رہے ہیں۔ چوں کہ اس کلاس میں نہ سیاسی دانش تھی، نہ تاریخ کا علم تھا، نہ مذہبی اقدار کا پتا تھا، نہ معاشرتی روایات کا احترام ہی تھا۔ یہ بالکل تازہ اور معصوم دماغ تھا کہ جس کو جب اور جس طرف گھمانا چاہو، گھما لو۔ بدقسمتی سے جو اس معصوم دماغ کا لیڈر تھا، وہ بھی سیاسی شعور اور وِژن سے عاری شخص تھا۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ شایدآج ہم تاریخ کی انتہائی سیاسی انارکی کا شکار ہو چکے ہیں۔ سیاسی مخالفت، ذاتی دشمنی کا لبادہ اوڑھ چکی ہے۔ اس طبقے نے سیاسی خیالات کو مسلک، فرقہ، بل کہ (نعوذ باللہ!) دین سے بھی زیادہ مقدس شکل دی ہے۔
مَیں نے بہت تعلیم یافتہ لوگوں کے منھ سے سنا ہے کہ اگر آپ خان صاحب کے حمایتی نہیں، تو فرعون اور یزید کے پیروکار ہیں۔ گویا وہ خود کو (نعوذباﷲ!) خود ساختہ موسوی و حسینی سمجھ بیٹھے ہیں۔
اس صورتِ حال سے پہلے انارکی کی سطح بس اتنی تھی کہ جلسۂ عام یا اشتہاروں میں کردار کُشی کی جاتی تھی، ذاتی حملے کیے جاتے تھے، لیکن جب سے تحریکِ انصاف کو مقبولیت ملی ہے، تب سے لوگوں کے گھروں پر حملے شروع ہوگئے ہیں۔ اب دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں یہ تصور بھی کیا جاسکتا ہے کہ ایک صوبہ کی وزیرِاعلا نجی دورہ پر سوئٹزر لینڈ یا برطانیہ جا رہی ہے، تو اس کے پیچھے اوباش نوجوانوں کو لگا دیا جاتا ہے کہ جو اُس کی گاڑی کو گھیر کر بے ہودہ بکواس کرتے ہیں۔ حتی کہ ایک سابقہ چیف جسٹس کا گھیراو کیا جاتا ہے اور قیادت بہ جائے اس کے کہ ان کو منع کرے، ان کے اس اقدام سے برات کا اعلان کریم، قیادت خوش ہوتی ہے اور اس کو بہ طور سیاسی حربہ استعمال کرتی ہے اور تاثر یہ دیتی ہے کہ قوم کے بہ حیثیت مجموعی جذبات ہیں۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ جب ایک سابق وزیرِاعظم کی نواسی اور دوسری وزیرِ اعظم کی بیٹی، جب کہ صدرِ پاکستان اس کا باپ ہے۔ وہ حلف لینے آئی، تو اسمبلی میں اس پر اوازے کسے گئے۔ اس کو ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ میری یہ بات لکھ کر رکھ لیں کہ اگر یہ تماشا یوں ہی جاری رہا، تو ہم سیاسی مفادات میں معاشرتی فیبرک کو تباہ کر دیں گے اور ﷲ نہ کرے کہ ملک کے اندر سول وار شروع ہوجائے۔ اس کو فوری اور ابھی روکنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ اس کے اثرات بہت بھیانک ہوں گے۔ بچوں کو یہ بات سمجھائی جانی چاہیے کہ بیٹا! سیاست کسی مذہبی عقیدہ یا دشمنی پالنے کا نام نہیں۔ سیاست میں زیادتیاں بھی ہوتی ہیں، لیکن اس کا طریقہ مہذب انداز کا احتجاج ہوتا ہے۔ عدلیہ میڈیا اور پارلیمانی ایوانوں میں لڑ کر مقابلہ کیا جاتا ہے اور ایک عدل و انصاف پر مشتمل نظام کے اجرا کی کوشش کی جاتی ہے…… لیکن اگر آپ اس کو ذاتی نفرت بناکر انتقامی جذبے سے بدمعاشی کریں گے، تو دوسری طرف سے بھی ردِ عمل ہوسکتا ہے۔ جس دن دوسری طرف سے ردِ عمل شروع ہوگیا، اُس دن سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔
خاص کر ہمارے مخاطب جناب عمران خان اور تحریکِ انصاف کی دوسرے نمبر کی قیادت ہے۔ ہم ان سے یہ اپیل کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنی پالیسوں پر غور کریں اور ایسا خطرناک گڑھا کھودنے سے پرہیز کریں کہ جس میں شاید وہ خود بھی گر جائیں۔ ملک میں سیاسی رواداری اور نظریات کے احترام کا درس دیں اور سیاست کے لیے صرف سیاسی جد و جہد کا راستہ اپنائیں۔ بے شک یہ طریقہ تھوڑا کٹھن اور طویل ہوگا، لیکن اس کے نتائج بہتر ہوں گے۔ آگاہ انسانی تاریخ میں بس یہی ایک مثبت اور کام یاب طریقۂ کار ہوتا۔ سیاست کو استعمال کرکے قوم کو متحد کریں، نہ کہ معاشرتی نفرت اور سیاسی انارکی کا اجرا کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے