حال ہی میں چین کے ایک وزیر نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ ’’آپ اپنے ملک میں امن و امان قائم کریں، ورنہ ترقی کی راہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
چین کی اس نصیحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی فوج نے ’’آپریشن عزمِ استحکام‘‘ کا اعلان کیا، لیکن یہ آپریشن حقیقت میں محض ایک دکھاوا ہے جو کہ عالمی سطح پر پاکستان کی صورتِ حال کو بہتر دکھانے کے لیے کیا گیا ہے۔ کیوں کہ اس سے قبل بھی دہشت گردی کے خلاف کئی فوجی آپریشن کیے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کی جڑ کو اُکھاڑا جا سکا اور نہ دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہی بنایا جاسکا۔
ماجد اللہ خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/majid-ullah-khan/
نئے آپریشن شروع کرنے سے قبل کیے گئے آپریشنوں کے نتائج سے قوم کو آگاہ کیا جائے اور اُن آپریشنوں کے نتیجے میں متعلقہ علاقوں کے عوام اور اُن کے انفراسٹرکچر کو جو نقصانات پہنچائے گئے ہیں، اُن کی تلافی بھی کی جائے۔
پاکستان میں جاری بدامنی کی اصل جڑ خود پاکستان کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیاں ہیں۔ کئی دہائیوں سے سیکورٹی اداروں نے اپنے مخصوص مفادات کے لیے ملک میں عدم استحکام پیدا کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، بل کہ ملک کی معیشت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو اپنے ہی محافظوں سے خطرہ ہے۔ ملک میں دہشت گردی اور بد امنی کی لہر کو بڑھاوا دینے میں سیکورٹی اداروں کا کردار قابلِ افسوس ہے۔ کئی واقعات میں سیکورٹی اداروں نے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی اور انھیں استعمال کیا، تاکہ مخصوص مفادات کو حاصل کیا جا سکے۔
ملک کی تباہی اور بدحالی کی ذمے دار بھی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ہے۔ سیاسی مداخلت، حکومتوں کا تختہ اُلٹنے اور قومی معیشت اور وسائل کا غلط استعمال وہ عوامل ہیں، جنھوں نے ملک کو اس حالت تک پہنچا دیا ہے۔
اگر پاکستان واقعی ترقی کی راہ پر گام زن ہونا چاہتا ہے، تو ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو ختم کیا جائے اور اسے اپنی آئینی حدود میں رہنے پر مجبور کیا جائے۔
چین کی نصیحت پر غور کرتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے داخلی مسائل کو حل کرے۔ اس کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ فوج کو سیاسی اور اقتصادی معاملات سے دور رکھا جائے اور عوام کے حقوق کو مقدم رکھا جائے۔ تبھی پاکستان حقیقی ترقی کی راہ پر گام زن ہو سکے گا۔
پھر ہمیں قرض پر قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی منتیں نہیں کرنی پڑیں گی اور نہ ہمیں چائینہ یا کوئی دوسرا ملک یہ نصیحت کرسکے گا کہ ہمیں اپنے ملک کے اندر امن و امان کی صورتِ حال بہتر بنانی چاہیے۔ ورنہ ہم عالمی سطح پر سیاسی طور پر آزاد رہ سکیں گے اور نہ ہم معاشی خود کفالت حاصل کرنے میں کام یاب ہی ہوسکیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔