یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی سے لے کر مڈل کلاس طبقے تک سب کو پیس کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی نے ڈاکٹر کے نسخے کا روپ دھار رکھا ہے۔ صبح، دوپہر اور شام کے حساب سے عوام مہنگائی کی ’’نئی خوراک‘‘ کھانے پر مجبور ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی میں 48 فی صد اضافہ ہوگیا تھا، جو پہلے 37 فی صد پر نیچے آگیا اور اب محض 18 فی صد ہے، جبکہ حقیقت میں یہ اضافہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اضافے کی شرح تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی اوسط نکال کر بتائی جاتی ہے۔ ان میں ڈھیر ساری اشیا ایسی بھی ہوتی ہیں، جو غریبوں کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں اور ان میں اضافہ نہیں ہوتا۔ مثلاً لگژری گاڑیوں اور موبائل فونز کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ہوگئی ہے، لیکن غریب لوگوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ البتہ گندم اور آٹے کی قیمتوں میں کمی سے غریبوں کو ضرور فائدہ پہنچا ہے، مگر اس میں بھی حکومت کے خلوص سے زیادہ مس مینجمنٹ اور اربوں روپے حکم رانوں کی جیبوں میں جانے کی وجہ زیادہ اہم ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
کہتے ہیں کہ ایک اجنبی دریا کے کنارے پہنچا، اُسے دریا پار جانا تھا۔ جب کافی دیر تک انتظار کے بعد بھی کشتی دوسرے کنارے سے واپس نہ آئی، تو اُس نے پیدل دریا عبور کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب اس میں قباحت یہ تھی کہ اُسے پانی کی گہرائی کا اندازہ نہ تھا۔ کنارے پر ایک نوجوان بڑے انہماک سے مطالعے میں مصروف بیٹھا نظر آیا۔ اجنبی اُس کے قریب گیا اور دریا کی گہرائی کے بارے میں پوچھا۔ اجنبی نے تھوڑی دیر سوچا۔ پھر جیب سے قلم نکالا۔ کتاب کے ایک صفحے پر کچھ حساب کتاب لکھا اور بولا: ’’دریا کی گہرائی تین فٹ ہے۔‘‘ اجنبی یہ جان کر خوش ہوگیا اور دوسرے کنارے پر جانے کے لیے دریا میں اُتر گیا۔ جب وہ دریا کے درمیان میں پہنچا، تو پانی اس کے گلے سے بھی اوپر تک آ گیا اور وہ ڈوبنے لگا۔ اس کا شور سن کر ایک آدمی نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور اُسے بچا کر کنارے پر لے آیا۔ جب اجنبی کے اوسان بہ حال ہوئے، تو اُس نے غصے سے دریا کی گہرائی بتانے والے نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’آپ نے تو دریا کی گہرائی تین فٹ بتائی تھی، مگر وہ تو چھے فٹ سے بھی زیادہ نکلی۔ آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟‘‘
وہ نوجوان اطمینان سے بولا: ’’مَیں نے آپ سے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ دریا کی گہرائی کہیں ایک فٹ، کہیں دو فٹ اور کہیں آٹھ فٹ ہے۔ مَیں نے تو آپ کو اوسط گہرائی تین فٹ بتائی تھی۔‘‘
دیگر متعلقہ مضامین:
خزانے پر پنشنر نہیں، اشرافیہ بوجھ ہیں (رفیع صحرائی)
بزرگ پنشنرز (ماسٹر عمر واحد)
ریاست ماں ہے مگر سگی یا سوتیلی؟ (ساجد امان)
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائے یہود (سید فیاض حسین گیلانی)
بوڑھے پنشنرز مہنگائی سے سب سے زیادہ پریشاں (ماسٹر عمر واحد)
کچھ یہی حال معیشت کے ہمارے حکومتی ماہرین کا ہے۔ وہ اوسط مہنگائی 18 فی صد بتا رہے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ روزمرہ کی عام استعمال ہونے والی اشیا ضرورت کی چیزوں میں 100 فی صد سے بھی زاید اضافہ ہوچکا ہے۔ صرف سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافے کی شرح سے ہی اصل اضافے کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کپڑے کی دُکان پر جائیں، تو قیمت سن کر ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ ادویہ کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ پٹرول اور ڈالر کے ریٹ کو جس طرح سے پر لگے ہیں، اُس سے دوگنی شرح سے دیگر اشیا مہنگی ہوئی ہیں۔
اگر دیکھا جائے، تو مہنگائی میں اس ہوش رُبا اضافے کی وجہ سے سب سے زیادہ تنخواہ دار طبقہ متاثر ہوا ہے۔ خصوصاً سرکاری ملازمین بری طرح سے کچلے گئے ہیں۔ مزدور اپنی مرضی سے مزدوری بڑھا لیتا ہے۔ مکینک اپنی اجرت میں خود اضافہ کرلیتا ہے۔ پرائیویٹ ڈاکٹر اپنی مرضی سے فیسیں بڑھا لیتے ہیں۔ ٹرانسپورٹر حکومت سے پوچھے بغیر کرائے طے کر لیتے ہیں، جب کہ دکان دار حضرات حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے من مرضی کی قیمتیں لگا کر گاہکوں کی کھال اُتار لیتے ہیں۔ صرف سرکاری ملازمین ہی ایسا طبقہ ہے جس کے اخراجات تو کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، مگر تنخواہ میں سال بعد اتنا اضافہ ہوتا ہے جتنا اُونٹ کے منھ میں زیرہ۔
سرکاری ملازمین کی قوتِ خرید تیزی سے جواب دیتی جا رہی ہے۔ ان کے ہاؤس رینٹ اور میڈیکل الاؤنس کو دیکھیں، تو لگتا ہے کہ ہم 1980ء کی دہائی میں رہ رہے ہیں۔ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ سرکاری ملازمین میں بھی چند محکموں کی صورت میں مراعات یافتہ طبقہ موجود ہے، جس کی وجہ سے دیگر سرکاری ملازمین احساسِ کم تری اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ مثلاً: سول سیکریٹیریٹ میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین اور عدلیہ کے ملازمین کی تنخواہیں اور الاؤنسز شاہانہ انداز میں بڑھتے رہتے ہیں، کیوں کہ خود کو مراعات دینے کا اختیار اُن کے اپنے پاس ہے۔ اندھے کی ریوڑیوں کی طرح یہ اپنی تنخواہیں بڑھالیتے ہیں، جب کہ باقی سرکاری ملازمین ہر سال تیزی سے خطِ غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں۔ پنشنروں کا حال اس سے بھی برا ہے۔ جب کوئی ملازم سبک دوش ہوتا ہے، تو وہ عملی طور پر ایک بڑے خاندان کا سربراہ بن چکا ہوتا ہے۔ اُس کا کنبہ وسیع ہوجاتا ہے۔ اولاد کے علاوہ نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں بھی اُس کے خاندان کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں۔ بیٹیاں اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ اس کے گھر آتی ہیں۔ اس کے اخراجات پہلے سے بڑھ جاتے ہیں، مگر حکومت اسے صرف اتنی پنشن دینا چاہتی ہے جس سے وہ بس جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکے۔ تنخواہ میں جتنا اضافہ کیا جاتا ہے، پنشن میں عام طور پر اس سے آدھا اضافہ ہوتا ہے جو پنشنروں کے ساتھ زیادتی ہے۔
سنا ہے کہ جون کے پہلے ہفتے میں وفاقی حکومت سالانہ بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ یہ اس حکومت کا پہلا بجٹ ہے۔ میاں نواز شریف نے انتخابی مہم مہنگائی کے بیانیے کو لے کر چلائی تھی اور عوام کو وعدوں کے بے شمار سبز باغ دکھائے تھے، جنھیں اس بجٹ کے موقع پر پورا کرنا ضروری ہے۔ گو آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی چھتری میں یہ ایک مشکل بجٹ ہوگا، مگر سخت شرائط کی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں۔ ملازمین کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ مہنگائی کی شرح کو مدِنظر رکھتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنروں کی پنشن میں کم از کم 100 فی صد اضافہ کیا جائے، تاکہ یہ سفید پوش طبقہ جو کسی سبسڈی کا مستحق بھی نہیں ہوتا، اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے اپنی روزمرہ ضروریات پوری کر سکے۔
ملازمین کے ہاؤس رینٹ، کنوینس الاؤنس اور میڈیکل الاؤنس میں مہنگائی کی شرح سے اضافہ بھی وقت کا اہم تقاضا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔