ودودیہ ہائی سکول کے سو (100) سال پورے ہونے کے موقع پر اسی سکول سے میٹرک کرنے والے ایک بے مثال طالب علم کے بارے میں کچھ معلومات آپ سے شیئر کروں گا۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
’’اسفندیار‘‘ ہمارے بچپن اور جوانی اور اَب بڑھاپے کے ساتھی، سیدو شریف افسرآباد میں ہمارے پڑوسی تھے۔ ان کے والد عبدالحنان ریاستی فوج میں توپ خانے کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔ ہمارا بچپن اِرد گرد کے بچوں کے لیے مثالی تھا۔ ہم ساتھ کھیلتے کودتے بڑھتے گئے۔ ہم پڑوسیوں سے زیادہ قریب ایک فیملی کی طرح رہ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا معمول کی بات تھی۔
اسفندیار نے ودودیہ ہائی سکول سے میٹرک کیا، لیکن کوئی خاص امتیازی پوزیشن حاصل نہ کرسکے۔ وہ مجھ سے ایک کلاس سینئر تھے، تو جب مَیں نے 1958ء میں جہانزیب کالج میں داخلہ لیا، تو وہ ایف ایس سی سال دوم میں تھا۔ 1959ء میں اُنھوں نے ایف ایس سی نان میڈیکل کا سالانہ امتحان دیا۔ امتحان کے دوران میں وہ 18، 18 گھنٹے پڑھتے رہتے۔ ہم دونوں ایک کمرے میں رہتے تھے۔ جب بھی میری آنکھ کھلتی، اُنھیں مطالعہ کرتے پاتا۔
ریزلٹ کی شام ہم ریڈیو کھول کے نتیجہ کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے۔ جب اناونسر نے کہا کہ ایف ایس سی پری انجینئرنگ میں جہانزیب کالج کے طالب علم اسفندیار نے یونیورسٹی بھر میں اول پوزیشن حاصل کی۔ تو ہم ایک دوسرے سے خوشی سے لپٹ گئے۔ اُن کی خوشی ہم سب کی خوشی تھی۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے جہانزیب کالج کا نام بھی روشن کردیا۔ چند لمحے بعد ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگے۔اُن کے والد نے ریسیور اُٹھالیا۔ والیِ سوات اُن کو بیٹے کی شان دار کامیابی پر مبارک باد دے رہے تھے۔
ہم دونوں کالج کے پرنسپل کرنل فیض اللہ خان خٹک کے بنگلے چلے گئے۔پرنسپل نے اُن کو گلے لگایااور ہم کو سکواش پلا کر رخصت کیا۔
اِس کے بعد وہ انجینئرنگ کالج پشاور میں داخلہ لے کر ہاسٹل نمبر 8 میں رہنے لگے۔ اُن کو اپنی شان دار تعلیمی کارنامے پر "Cubical” الاٹ کیا گیا تھا۔
اب یہاں سے اُن کے کارناموں کا ایک اور باب شروع ہوا۔ فرسٹ ایئر انجینئرنگ سے لے کر فائنل ایئر تک وہ کالج ٹاپ کرتے رہے۔ جس پر اُن کو گولڈ میڈل ملا۔ صدر ایوب کی طرف سے بھی سونے کا تمغا اور تین ہزار روپیا نقد ملا، جو اُس زمانے میں بڑی رقم تھی۔
اُن دنوں سول انجینئر کی تنخواہ 250 روپیا سے شروع ہوتی تھی، مگر اُن کو واہڈا نے 750 روپیا ماہوار تنخواہ پر بھرتی کیا۔
ابھی اُنھیں اور آگے بڑھنا اورپڑھنا تھا۔ اُنھیں جرمن گورنمنٹ سے سکالرشپ ملی، تو وہ سروس چھوڑ کر جرمنی چلے گئے اور "RCC” میں سپیشلائزیشن کرکے وہاں پر ایک فرم میں ملازمت اختیار کی۔
دریں اثنا ایوب خان ہی کے دور میں تربیلہ ڈیم کی تعمیر کے لیے بین الاقوامی ٹینڈر فلوٹ کیے گئے، تو تین ممالک جرمنی، فرانس اور اٹلی کی ایک مشترکہ فرم نے ٹینڈر حاصل کی۔ اس کانام "TJV” یعنی ’’تربیلا جائنٹ ونچر‘‘ (Turbela Joint Venture) تھا۔ اسفندیار اس کے سینئر انجینئر کی حیثیت سے تربیلہ آگئے اور پراجیکٹ کی تکمیل تک اس کے نگران انجینئر رہے۔بعد میں یوروپ کے کئی ممالک میں بڑے بڑے منصوبوں سے منسلک رہے۔
آج کل وہ حیات آباد پشاور میں کئی سالوں سے مقیم ہیں۔ اُن کا ایک بیٹا امریکہ میں ڈاکٹر ہے اور دوسرا پشاور میں ایک صنعتی یونٹ چلا رہا ہے۔
تو یہ ہیں ودویہ ہائی سکول کے ایک مایہ نازطالب علم۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔