پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پنجاب اسمبلی کے آیندہ الیکشن کے لیے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر دیے ہیں۔ جن امیدواروں کو ٹکٹ جاری ہوئے ہیں، وہ خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں، جب کہ پی ٹی آئی ٹکٹ کے خواہش مندوں کی ایک بڑی تعداد جو محروم رہ گئی ہے، اُس نے ٹکٹوں کی تقسیم کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
اسی اثنا میں پی ٹی آئی کے مرکزی لیڈر سینیٹر اعجاز چوہدری کی ایک مبینہ آڈیو منظرِ عام پر آئی، جس میں وہ ٹکٹ کے ایک امیدوار سے ٹکٹ کے حصول کے لیے عمران خان سے ملاقات کروانے کا معاوضہ کم از کم ایک کروڑ روپے طلب کر رہے ہیں…… جب کہ یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ فی ٹکٹ کم از کم پانچ کروڑ روپے ہر امیدوار سے مانگے گئے ہیں۔ یہ رقم پارٹی فنڈ کی بجائے شوکت خانم کو ’’ڈونیشن‘‘ کی صورت میں ادا کرنا ہوگی۔ بتایا جا رہا ہے کہ پانچ کروڑ کی شرط ’’کم از کم‘‘ ڈونیشن کے لیے ہے، زیادہ کی کوئی حد نہیں…… جس کی وجہ سے ایک اندازہ یہ بھی لگایا گیا ہے کہ یہ رقم پانچ کروڑ سے پندرہ کروڑ کے درمیان دی گئی ہے۔
اگر درجِ بالا الزامات حقیقت پر مبنی ہیں، تو ایک محتاط اندازے کے مطابق ملاقات یا انٹرویو کی مد میں کم از کم پانچ ارب روپے پارٹی فنڈ میں جمع ہوچکے ہوں گے۔ کیوں کہ قریباً ہر حلقے میں ایک سے زاید امیدوار پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے خواہش مند تھے۔ اسی طرح کم از کم ساڑھے بارہ ارب روپے شوکت خانم ہسپتال کو امیدواران کی طرف سے ڈونیشن کی مد میں مل چکے ہوں گے۔ یہ تمام الزامات مخالفین کی طرف سے نہیں…… بلکہ پی ٹی آئی کے اندر سے ہی لگائے جا رہے ہیں۔
جہلم میں فواد چوہدری کے بھائی کو پی پی حلقہ 25 سے ٹکٹ جاری کیا گیا ہے، جس پر پی ٹی آئی شمالی پنجاب کے نائب صدر زاہد اختر اور پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے یاور کمال نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنی سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا بلکہ عمران خان کو ’’رانگ نمبر‘‘ بھی کَہ دیا ہے۔
زاہد اختر کا کہنا تھا کہ ہم نے ماریں کھائیں، مقدمات بھگتے، زمان پارک میں کیمپ لگا کر عمران خان کی حفاظت کرتے رہے، مگر عمران خان ٹکٹ فواد چوہدری کے بھائی کو دے کر ہمیں انھی روایتی لوگوں کی غلامی میں دینا چاہتے ہیں جو ہمیں منظور نہیں۔ انھوں نے پی ٹی آئی امیدوار کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔
اُدھر ضلع اوکاڑا میں بھی پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر بڑی بغاوت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ سابق ٹکٹ ہولڈرز سید رضا علی گیلانی، میاں خرم جہانگیر وٹو اور محترمہ روبینہ شاہین وٹو کے علاوہ سید صمصام بخاری اور پی ٹی آئی کے اَن تھک ورکر بلال عمر بودلہ کو بھی ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ پانچوں ہی مضبوط امیدوار تھے۔ میاں خرم جہانگیر وٹو اور محترمہ روبینہ شاہین وٹو سابق وزیرِ اعلا پنجاب میاں منظور احمد وٹو کی اولاد ہیں۔ دونوں ہی ایم پی اے اور ایم این اے رہ چکے ہیں۔ سید رضا علی گیلانی تین مرتبہ کے ایم پی اے اور سابق صوبائی وزیر ہیں۔ سید صمصام بخاری اوکاڑا سے پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر ہیں۔ وہ وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ میاں بلال عمر بودلہ مضبوط ووٹ بنک رکھتے ہیں اور نوجوانوں میں بے حد مقبول ہیں۔ انھوں نے گذشتہ ایک سال سے خود کو عمران خان اور پارٹی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔
اس طرح اوکاڑا میں سابق ٹکٹ ہولڈر اور مضبوط امیدوار عبداللہ طاہر کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ میاں خرم جہانگیر وٹو نے ایک بیان میں عمران خان کے فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے پی پی 189 سے اپنے بڑے بھائی میاں معظم جہانزیب وٹو اور پی پی 190 سے خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ نہ صرف ضلع اوکاڑا بلکہ پورے پنجاب میں زیادتی کا شکار ہونے والے پی ٹی آئی کی ٹکٹ سے محروم سیاست دانوں کا ایک الائنس تشکیل دے کر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرکے پی ٹی آئی امیدواروں کو شکست سے سے دوچار کریں گے۔
گوجرانوالہ میں بڑی برادریوں ارائیں، شیخ، انصاری، مغل اور کمبوہ کو نظر انداز کر کے کشمیریوں کو دو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں، جو مقامی قیادت اور کارکنوں نے مسترد کر دیے ہیں۔
لاہور میں بھی یہی حال ہے۔ کرامت کھوکھر کے بھتیجے ظہیر عباس کھوکھر کو ٹکٹ نہیں ملا۔ دیگر ٹکٹوں پر بھی اعتراض اٹھائے جا رہے ہیں۔ مہر شرافت کو ’’پیرا شوٹر‘‘ قرار دے کر نامنظور کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
پی پی 217 ملتان سے شاہ محمود قریشی صاحب کے بیٹے شاہ زین کو ٹکٹ جاری کرنے پر عبدالجبار نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ شاہ محمود نے اپنے بیٹے اور بھانجے کو ٹکٹ دلوا کر موروثی سیاست کو پروان چڑھایا ہے۔
اگر فیصل آباد کی بات کی جائے، تو وہاں پر 13 نئے چہروں کو ٹکٹ دیے گئے ہیں جس سے پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔
دیکھا جائے تو پورے پنجاب میں یہی صورتِ حال ہے۔ اگر عمران خان اپنے بیان کے مطابق تمام امیدواران سے بذاتِ خود انٹرویو لیتے، تو یقینا شکایات میں کمی آ سکتی تھی، مگر انھوں نے جنوبی پنجاب سے چند لوگوں کے انٹرویو لینے کے بعد یہ سلسلہ موقوف کرکے ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا تھا۔
اگر اعلان کردہ امیدواروں کو دیکھیں، تو عمران خان موروثی سیاست کے خاتمے سے ’’یو ٹرن‘‘ لیتے نظر آ رہے ہیں۔ پرویز الٰہی کے ساتھ ساتھ مونس الٰہی کو بھی ٹکٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ زلفی بخاری کے بھائی بھی ٹکٹ لے اُڑے ہیں۔ ایک بات یہ بھی غور طلب ہے کہ تمام ٹکٹ ہی سرمایہ داروں کو دیے گئے ہیں۔ عام ورکرز اور مڈل کلاس میں اس سے مایوسی پھیلی ہے۔ وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ورکرز کیا ماریں کھانے، مقدمات بھگتنے، جیلوں میں جانے اور ظلِ شاہ کی طرح کیا جانیں دینے کے لیے ہیں!
ایک اور بات جو کھل کر سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ عمران خان کے وزیرِ اعلا پنجاب کے اگلے امیدوار عثمان بزدار ہوں گے۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے پانچ ہیوی ویٹ سیاست دانوں کو ناراض کرلیا ہے۔ فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی، شہباز گِل، ظہیر عباس کھوکھر اور مراد راس نے پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا تھا۔ پانچوں ہی پی ٹی آئی میں قد آور شخصیات ہیں اور جیت کی صورت میں وزیرِ اعلا بننے کے مضبوط امیدوار تھے۔ شاہ محمود قریشی اورفواد چوہدری تو 2018ء میں بھی خود کو وزارتِ اعلا کے منصب پر دیکھ رہے تھے۔ اس مرتبہ ان پانچوں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
حماد اظہر نے عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی کے لیے کاغذات جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ خان صاحب انھیں پنجاب میں اہم ذمے داری سونپنا چاہتے ہیں۔ ان کا اشارہ وزارتِ اعلا کے منصب کی طرف تھا، لیکن انھیں بھی ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا۔ وجہ پوچھنے پر حماد اظہر نے بتایا کہ خان صاحب نے کہا ہے کہ وہ معیشت سنبھالنے کے لیے انھیں مرکز میں ذمے داری دینا چاہتے ہیں۔ حماد اظہر نے بتایا کہ انھوں نے تو خان صاحب کی اس بات پر کئی روز پہلے ہی اپنے کاغذاتِ نام زدگی واپس لے لیے تھے۔
یہ وہی حماد اظہر ہیں جنھیں وفاقی وزیرِ خزانہ بنانے کے بعد عمران خان نے ان کی کارکردگی سے مایوس ہو کر دو ماہ میں ہی عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر انھوں نے ٹکٹوں کی تقسیم سے پہلے کاغذاتِ نام زدگی واپس لے لیے تھے، تو کسی کو بتایا کیوں نہیں تھا؟ بہرحال عمران خان کے اقدامات سے یہی لگ رہا ہے کہ ان کے آیندہ نام زد وزیرِ اعلا عثمان بزدار ہی ہوں گے۔ پرویز الٰہی صاحب کو وزیرِ اعلا بنانے کا رسک عمران خان نہیں لیں گے کہ انھی کی وزارتِ اعلا کے دوران میں عمران خان کا لانگ مارچ ناکام ہوا تھا۔ عمران خان زخمی ہوئے تھے اور پرویز الٰہی صاحب نے عمران خان کے حسبِ منشا اس واقعے کی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہونے دی تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔