مینگورہ، ایک شہر بے مثال (چوتھی قسط)

مینگورہ شہر میں 90ء کی دہائی میں رکشہ اڈّے کے بالکل سامنے ’’مرغزار اڈّا‘‘ تھا۔ مجھے یاد ہے جب ہم اپنی پھوپھی کے گھر مرغزار جایا کرتے تھے، تو محلہ امان اللہ خان (نشاط چوک، مینگورہ) سے اپنی دادی کا پلّو پکڑ کر خوشی خوشی مرغزار اڈّے کا راستہ ناپتا۔
آج کل مذکورہ اڈّا ایک طرح سے ’’چینہ بازار‘‘ کی اکسٹینشن ہے۔ اس میں درجنوں کپڑے اور بناو سنگار کی دکانیں تعمیر کی گئی ہیں، جہاں مینگورہ شہر سمیت آس پاس کے علاقوں سے خواتین شاپنگ کی غرض سے آیا کرتی ہیں۔

تصویر میں دِکھنے والے ’’ایپل سٹور‘‘ کی جگہ 90ء کی دہائی میں مرغزار اڈے کا سٹینڈ ہوا کرتا تھا۔ (فوٹو:  سحابؔ)

آمدم برسرِ مطلب! مرغزار اڈّا اُس وقت کی مناسبت سے کافی بڑا تھا۔ اس کے اندر درجنوں ڈاٹسن گاڑیاں اور ویگن گاڑیاں (جنہیں پُشتو میں ’’ٹورس‘‘ کہتے ہیں) کھڑی ہوتی تھیں۔ ایک ’’ٹورس‘‘ تو مجھے ابھی تک یاد ہے۔ اس کی چھت پر سواریاں بٹھانے یا سواریوں کا بھاری سامان رکھنے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ برلبِ سڑک تقریباً دو دکانوں جتنی جگہ کے اوپر ایک چھت تعمیر کی گئی تھی۔ یہ جگہ ایک طرح سے گاڑیوں کا ’’سٹینڈ‘‘ ہوا کرتی تھی۔ جس گاڑی کی باری ہوا کرتی، ڈرائیور اُسے سٹینڈ پر لاکھڑا کرتا۔ مذکورہ جگہ پر دو گاڑیاں (سوزوکی اور ڈاٹسن) بیک وقت سواریاں لینے کے لیے کھڑی رہتیں۔ سوزوکی میں سیدو شریف تک جانے والی سواریاں بیٹھتیں جب کہ ڈاٹسن اور ’’ٹورس‘‘ میں سیدو شریف سے آگے مرغزار اور سلام پور تک جانے والی سواریاں بیٹھ جایا کرتیں۔
مَیں جب بھی اپنی دادی (مرحومہ) کے ساتھ مرغزار کے لیے سواری پکڑنے اڈّے جاتا، تو برلبِ سڑک ایک کوتاہ قد شخص کھڑا ایک ہی راگ الاپتا ملتا: ’’میاں بابا، کُکڑئی، شگئی، سیرئی، مرغزار والا!‘‘ (یعنی میاں بابا، کُکڑئی، شگئی، سیرئی اور مرغزار والی سواریاں اس طرف تشریف لائیں۔‘‘
مذکورہ شخص کا نام ’’گلونو‘‘ (ساکن قمبر) تھا…… لیکن سب اُسے ’’ڈمڈہ مار ماما‘‘ کَہ کر پکارتے۔ ناک نقشہ اُس کا کچھ یوں تھا: کوتاہ قد، رنگت سیاہ مایل گندمی، آنکھیں بھینگی، لمبی داڑھی، سلام پور کے کھڈوں کی بنی ایک پُرانی میلی سی چادر اُوڑھے ہوئے…… چاہے موسم سرد ہو یا گرم…… میاں بابا، کُکڑئی سیرئی، شگئی اور مرغزار کے لیے سواریاں ڈھونڈنے آواز لگاتا۔ دن بھر مذکورہ جگہوں کے نام زور زور سے پکارنے کی وجہ سے اکثر اس کا گلہ بیٹھا ہوا محسوس ہوتا۔ جانے آج وہ زندہ بھی ہوگا یا نہیں……!
مرغزار اڈّے میں مرغزار ہی کا ایک ڈرائیور کافی مشہور تھا جسے ہر چھوٹا بڑا ’’گاگا‘‘ کے نام سے پکارتا تھا۔ اُس کا اصل نام ’’محمد نواب‘‘ تھا۔ ایک سال قبل جب میرے پھوپھا فضل واحد (جو کہ پبلک ہیلتھ میں پایپ فٹر کے عہدہ پر فایز تھے) انتقال کرگئے، تو غالباً 32 سال بعد مرغزار کی جامع مسجد کے ایک کونے میں آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے ایک بابا کو دیکھا۔ میرے پھوپھی زاد ’’ذیشان ڈینٹر‘‘ نے انگلی کے اشارے سے مجھے کہا: ’’وہ رہا گاگا!‘‘

مرغزار کے فضل واحد (مرحوم) اپنے بڑے بیٹے ’’ذیشان ڈینٹر‘‘ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ (فوٹو: ذیشان ڈینٹر)

وہ جوان جس کی گردن لمبے بالوں تلے چھپی ہوا کرتی، جیسے ہی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا، تو کسی فلمی ہیرو کی طرح مرغزار کی کچی پکی سڑک اور آڑے ترچھے راستوں پر سواریوں سے بھری گاڑی دوڑاتا، وہ گھبرو جوان ’’گاگا‘‘ 32 سال بعد ’’بابا‘‘ دِکھ رہا تھا۔ مجھے دفعتاً احمد مشتاق کا یہ شعر یاد آیا کہ
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اُس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے

90ء کے عشرے میں مرغزار اڈّے کے مشہور ترین ڈرائیور ’’گاگا‘‘ کی جوانی اور بڑھاپے کی تصاویر۔ (فوٹو: ذیشان ڈینٹر)

مرغزار اڈّے کے دیگر ڈرائیوروں میں فضل حکیم، نصرے، گل شیرین (ٹورس والا) اور کاکاجی (جس کا اصل نام یاد نہیں) قابلِ ذکر ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک مرتبہ مرغزار جاتے ہوئے شاید کُکڑئی کے مقام پر ایک اور ڈرائیور (جس کا نام یاد ہے نہ بشرہ) تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیسی مرغی پر چڑھ دوڑا۔ اب جیسے ہی مرغی کا مالک آیا، تو سیدھا ڈرائیور کو گریباں سے پکڑ لیا۔ سواریوں میں سے چند معززین نے اُسے سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کرلیا۔ یہ وہ دور تھا جب سوات میں ’’فارمی مرغیوں‘‘ کی وبا نہیں آئی تھی۔ مرغیاں بھی دیسی تھیں اور انڈے بھی۔ اس لیے کسی بڑی دعوت یا خاص مہمان کے علاوہ مرغِ مسلم چکھنا کسی بڑے عیش سے کم نہ تھا۔ جب بھی ہمارے ہاں مہمانوں کی دعوت ہوتی یا ہم کسی کے ہاں مہماں بن کر جاتے، تو ہمیں مرغی کی ٹانگ پکڑائی جاتی یا گردن…… یا زیادہ سے زیادہ ایک’’وِنگ‘‘ (Wing) پر ٹرخا دیا جاتا۔ اور بڑے بوڑھے سالم مرغ پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد جیسے ہی ماچس کی تیلی سے خلال کرتے، تو ہمارا ان کی شان میں گستاخی کرنے کو جی چاہتا…… مگر بقولِ غالبؔ
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
القصہ، مرغی کا مالک ٹھنڈا تو ہوا، مگر اُس نے ڈرائیور کو چھوڑنے کے بدلے عجیب سا تقاضا کیا…… اور وہ یہ کہ ’’جب تک مرحومہ (مرغی) کی دُگنی قیمت ادا نہیں کی جاتی، ڈرائیور ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘ مجھے یاد ہے اُس وقت ایک باریش بزرگ نے دُ گنی قیمت کی وجہ پوچھی، تو مرغی کے مالک نے بغیر سوچے یہ چٹکلا چھوڑا کہ ’’بابا جی! میری مرغی روزانہ دو انڈے دیا کرتی تھی!‘‘ یہ سنتے ہی سواریوں نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ بالآخر اُس وقت کی مناسبت سے مرغی کے مالک کو اصل قیمت سے دو تین روپے زیادہ ادا کیے گئے، تو ہی ڈرائیور کی جان چھوٹی۔
آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے، تو لبوں پر مسکراہٹ بکھرنے کے ساتھ ساتھ آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ شاید ایسے ہی کسی موقع پر ناصرؔ کاظمی کے دل سے اِک ہوک اٹھی ہوگی اور یہ شعر وجود پاگیا ہوگا کہ
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
آج اُس جگہ کا نظارہ کیجیے، جہاں ایک چھت سی بنی ہوتی تھی اور اُس کے نیچے بہ یک وقت دو گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں، اب اُس پر ایک سہ منزلہ عمارت کھڑی ہے۔ ’’گاگا‘‘، ’’بابا‘‘ بن گیا ہے۔ ’’گلونو‘‘ انتقال کرچکا ہوگا۔ دادی بھی زندگی کی قید سے ایک عرصہ ہوا آزاد ہوگئی ہیں۔ گوکہ ہم اب تک زندگی کی 41 خزانیں ہی دیکھ پائے ہیں…… لیکن پتا نہیں کیوں ماضی کی یادیں پاؤں کی بیڑی بنی ہوئی ہیں۔ ایسا اکثر 60،70 سالہ بابوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
منیرؔ نیازی کی اِک چھوٹی سی نظم کے اِن تین بندوں کے ساتھ اگلی نشست تک اجازت چاہوں گا، اللہ حافظ و ناصر……!
اے شہرِ بے مثال ترے بام و در کی خیر
اے حسنِ لا زوال ترے بام و در کی خیر
دیکھے ہیں تو نے دور بہت آسمان کے
بیتے ہیں تجھ پہ عہد بہت امتحان کے
اے قریۂ جلال ترے بام و در کی خیر
اِک داستاں ہے ساتھ ترے رنگ و نور کی
یادیں ہیں تیرے ساتھ بہت دور دور کی
خوابِ شبِ جمال ترے بام در کی خیر
(جاری ہے)
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔