مَیں جب 1993ء میں نیا نیا لندن آیا تھا، تو مجھے برطانوی دارالحکومت کے پارک، آرٹ گیلریاں، لائبریریاں، تھیٹر اور عجائب گھر دیکھنے کا بہت شوق تھا، جو اَب تک قائم ہے۔ خاص طور پر یہاں کے پارکوں میں سیر سپاٹے سے مجھے ایک قسم کی روحانی تسکین اور سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ لندن ویسے بھی ایک سرسبز اور مختلف طرح کے تین ہزار پارکوں سے مزین ایک شان دار شہر ہے۔ اس شہر کے وسط میں تین سو پچاس ایکڑ رقبے پر مشتمل ایک ’’ہائیڈ پارک‘‘ ہے جو دنیا بھر میں کسی بھی ملک کے دارالحکومت کے مرکز میں سب سے بڑا پارک شمار کیا جاتا ہے۔
اس پارک کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ اسے 1536ء میں کنگ ہنری ہشتم نے اپنی شکارگاہ کے طور پر بنوایا تھا جسے بعد ازاں کنگ چارلس نے 1637ء میں عوام کے لیے کھول دیا۔ 1665ء میں جب برطانیہ میں پلیگ یعنی طاعون کی وبا پھیلی تو ہائیڈ پارک کو کچھ عرصے کے لیے ملٹری کیمپ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ 1887ء میں کوئین وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات بھی اسی پارک میں منعقد ہوئیں جس میں مختلف سکولوں کے 26 ہزار بچوں کے لیے ضیافت کا اہتمام کیا گیا اور انہیں شاہی تحائف بھی دیے گئے۔ 1880ء میں ہائیڈ پارک کے ایک حصے میں شاہی خاندان کے پالتو جانوروں کا قبرستان بنایا گیا جس میں تین سو کے قریب جانور دفن ہیں۔ بیسویں صدی کے آخر میں اِسی پارک کے ہزاروں درختوں کو ایک خاص قسم کی بیماری لگ گئی جس کی وجہ سے انہیں کاٹ کر یہاں میپل ٹری اور درجنوں اقسام کے دیگر درخت اور پودے لگائے گئے۔ ہائیڈ پارک میں اس وقت چار ہزار سے زیادہ درخت اور پودے ایستادہ ہیں جب کہ فلاور گارڈن ان کے علاوہ ہیں۔ یہ پارک شاہی تقریبات، میوزیکل کنسرٹ، فیسٹیول اور فوجی پریڈ کے حوالے سے بھی اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہے۔
ستمبر 2010ء میں جب ویٹی کن سٹی کے پوپ بینڈکٹ نے برطانیہ کا دورہ کیا، تو تقریباً 80 ہزار افراد دعائیہ تقریب کے لیے ہائیڈ پارک میں جمع ہوئے۔ اسی طرح 2012ء میں ملکہ برطانیہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر ایک بہت بڑا فیسٹیول اس پارک میں منعقد ہوا۔
ہائیڈ پارک کی ایک منفرد پہچان اس کا سپیکر کارنر ہے جو 1872ء میں بنایا گیا جس کے بعد لندن کے 5 دیگر پارکوں کے علاوہ برطانیہ کے مختلف شہروں میں بھی اس طرح کے سپیکر کارنر بنائے گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب تو آسٹریلیا کے شہر سڈنی، کینیڈا، امریکہ، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، اٹلی، ملائیشیا، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، سنگا پور، تھائی لینڈاور ٹرینی ڈاڈ اینڈ ٹوبیگو میں بھی اس طرز کے سپیکر کارنر موجود ہیں۔
ہائیڈ پارک لندن کا سپیکر کارنر نہ صرف آزادیِ اظہار کی ایک علامت ہے بلکہ یہ وہ تاریخی جگہ ہے جہاں کارل مارکس، ولادی میرلینن اور جورج اورویل جیسی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔ 1906ء سے 1914ء کے دوران جب برطانیہ میں خواتین کے حقوق اور انہیں عام انتخاب میں ووٹ کا حق دینے کی تحریک چل رہی تھی، تو سپیکر کارنر خواتین کے مطالبات کے اظہار کا سب سے اہم مرکز تھا۔ فروری 2003ء میں جب عراق پر امریکہ نے جنگ مسلط کی اور برطانیہ نے اس کا ساتھ دیا، تو ایک ملین سے زیادہ لوگوں نے لیبر حکومت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا اور ہائیڈ پارک کا یہ سپیکر کارنر ہر امن پسند کے لیے آزادیِ اظہار کا مرکز بنا رہا۔
مَیں جب 1994ء میں پہلی بار ہائیڈ پارک گیا، تو یہ موسم گرما کا ایک روشن دن تھا۔ اتوار کی وجہ سے سپیکر کارنر میں کافی گہما گہمی تھی۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کئی لوگ سٹولوں پر کھڑے تقریریں کر رہے تھے۔ کوئی ملکۂ برطانیہ کے خلاف دل کی بھڑاس نکال رہا تھا، تو کوئی حضرت عیسیٰ کی شان میں ہرزہ سرائی کیے جا رہا تھا۔کوئی سرمایہ دارانہ نظام اور استعماریت کے بخیے ادھیڑرہا تھا، تو کوئی خود کو نجات دہندہ قرار دے کر لوگوں کو قائل کرنے کے لیے پورے جوش و خروش اور جاہ وجلال کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ کوئی سیاہ فام لوگوں کی غلامی کے دور کا نوحہ پڑھ رہا تھا، تو کوئی خدا کے وجود سے انکار (نعوذ بااللہ) کا اعلان کر رہا تھا۔ کوئی تیسری دنیا کے غریبوں اور بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم لوگوں کے حق میں آواز بلند کر رہا تھا، تو کوئی ہٹلر کا روپ دھارے یہودیوں کو نیست و نابود کرنے کا حکم جاری کر رہا تھا، کوئی دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے خطرات سے آگاہ کر رہا تھا،تو کوئی عنقریب دنیا کی تباہی و بربادی کے آثار کی خبر دے رہا تھا۔
ایک شخص سٹول پر کھڑا فلسطینیوں کے حق میں تقریر کر رہا تھا اور قریب ہی چند راہب اسرائیل کا پرچم تھامے خاموشی سے اس کا خطاب سن رہے تھے کہ اچانک ہوا کے ایک تیز جھونکے کی وجہ سے اسرائیلی پرچم پلاسٹک کی چھڑی سے نکل کر فلسطینی مقرر کے پاؤں تلے جا گرا اور لکڑی کے سٹول میں الجھ گیا۔ قریب کھڑے لوگوں نے فرطِ جذبات سے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ یہ محض اتفاق تھا یا قدرت کی رضا لیکن مجھے یوں لگا کہ بعض اوقات ہوا کا ایک جھونکا بھی ظالم و مظلوم کی قسمت کے فیصلے کی طرف اشارہ کر دیتا ہے۔
قارئین، سپیکر کارنر میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ یہاں لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکال کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت بڑا معرکہ سرانجام دے دیا۔ شاید اسی طرح ان کا جی ہلکا ہو جاتا ہے اور وہ ایک نفسیاتی اور ذہنی دباؤ سے کچھ وقت کے لیے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔
ویسے تو سپیکر کارنر میں کوئی بھی شخص کسی بارے میں اظہارِ خیال کر سکتا ہے یا مباحثے کا حصہ بن سکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ دوسرے فرد یا افراد کی آزادیِ اظہار پرگتھم گتھا یا ہاتھا پائی کی نوبت نہ آئے، وگرنہ پولیس کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ مَیں سپیکر کارنر کی گہما گہمی سے نکل کر ہائیڈ پارک کے وسط میں خوبصورت جھیل (سرپنٹاٹن لیک) کے کنارے ایک بینچ پر آ کر بیٹھ گیا۔ شام ڈھل رہی تھی ۔ راج ہنس اور بطخیں پانی میں تیر رہے تھے اور جنگلی کبوتروں کے غول کے غول پارک کے مختلف حصوں سے اڈاریاں بھرتے ہوئے اپنے آشیانوں کی طرف محوِ پرواز تھے۔ ماحول پر ایک خاص طرح کے سکوت اور سکون کا غلبہ تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان کے ہر شہر میں ایک ہائیڈ پارک اور سپیکر کارنر بنایا جانا چاہیے جہاں لوگ آزادیِ اظہار کے نام پر اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں۔ کھل کر بحث مباحثے کرسکیں، تاکہ وہ نفسیاتی اور ذہنی گھٹن سے محفوظ رہیں، لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ کیا پاکستانی معاشرے میں قوتِ برداشت”Tolerance Level”اس درجے پر ہے کہ جہاں کسی دوسرے کی اختلافی بات سن کر ہمارا خون نہ کھول اٹھے؟ تعلیم و تربیت اور علم کی بدولت ہی انسانوں میں قوتِ برداشت کا جذبہ پختہ ہوتا ہے، جس معاشرے میں ہر لمحہ ایک دوسرے کے مسلک اور نظریے کو تسلی اور قبول نہ کرنے کا درس دیا جاتا ہو بلکہ برین واشنگ کی جاتی ہو، وہاں پر کسی شہر میں ہائیڈ پارک اور سپیکر کارنر بنا بھی دیا جائے اور لوگوں کو وہاں آزادیِ اظہار کی اجازت میسر ہو، تو ہر روز درجنوں لاشیں وہاں سے اٹھانا پڑیں گی۔ کیوں کہ اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں لوگ اب دلیل کی بجائے اسلحے اور گولی کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ ملک میں علم کی بجائے اسلحہ اور بارود تیزی سے پھیل رہا ہے اورلوگوں کی قوتِ برداشت خطرناک حد تک سمٹتی اور سکڑتی جا رہی ہے۔
یہ کالم تو میں ہائیڈ پارک اور سپیکر کارنر تک محدود رکھنا چاہتا تھا مگر معلوم نہیں بات ہم پاکستانیوں کی قوتِ برداشت تک کیوں پہنچ گئی؟ بہرحال اگر آپ کبھی لندن آئیں، تو ہائیڈ پارک کی سیر کو اپنے پروگرام میں ضرور شامل رکھیں۔ یہ صبح 5بجے سے رات 12بجے تک کھلا رہتا ہے۔ یہاں جولائی 2004ء میں شہزادی ڈیانا کی یاد میں نصب کیے جانے والے فوارے کے علاوہ ’’جوائے آف لائف فاؤنٹین‘‘ ہر سیاح کے لیے ایک خاص کشش رکھتے ہیں۔ اگر آپ آکسفورڈ سٹریٹ اور ماربل آرچ کی طرف سے اس پارک میں داخل ہوں، تو سامنے ہی آپ کو سپیکر کارنر بھی دکھائی دے گا۔
ہائیڈ پارک 1637ء سے برطانوی تاریخ کے سیاسی، سماجی اور شاہی واقعات کا گواہ ہے۔ پانچ صدیاں پہلے قائم ہونے والے اس پارک نے نہ صرف اپنی انفرادیت اور شان وشوکت کو برقرار رکھا ہے بلکہ اس کی خوبصورتی اور رعنائی میں اتنا طویل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ زندہ قومیں اپنے تاریخی اور قدرتی اثاثوں کا اسی طرح تحفظ کرتی ہیں۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔